اتوار، 2 ستمبر، 2012

وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے قسط (1)

الواقعۃ شمارہ نمبر ٣ 

علّامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی

وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے


ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزرا ایک بار جماعت امت مسلمہ کی دعوت پر شمس العلماء حافظ محب الحق مرحوم کے ساتھ امرتسر گیا تھا تو ادارہ البیان کے بہت سے احباب ملے اور امت مسلمہ کے ارکان بھی ۔ مولانا احمد الدین سے بھی ملاقات ہوئی مگر وہ ملاقاتیں محض سرسری ہی رہیں البتہ البیان میں میرے مضامین برابر چھپتے رہے ۔ مگر ادارہ البیان بالکل انکارِ حدیث کی طرف مائل تھا اور میں مطابق قرآن حدیثوں کو دین میں حجت سمجھنے پر مصر تھا مگر باہم مخلصانہ افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہا ۔
میرے ایسے مضامین بھی برابر چھپتے رہے جن سے ادارے کو کم و بیش اختلاف تھا ۔ ہجرت کے بعد میں ڈھاکہ پہونچا اور ادارہ طلوعِ اسلام نے کراچی کو اپنا مستقر بنایا باوجود بُعد المشرقین کے باہمی مخلصانہ تعلقات قائم ہوئے اور میرے مضامین طلوعِ اسلام میں چھپنے لگے ۔ البیان بھی لاہور سے نکلنے لگا اور اس میں بھی میرے مضامین چھپتے رہے مگر البیان زندہ نہ رہ سکا جس کا مجھ کو افسوس ہے ، طلوعِ اسلام میں میرے وہی مضامین چھپتے رہے جو ادارہ طلوعِ اسلام کے مسلک کے موئد تھے اور جن سے ادارے کو ذرا سا بھی اختلاف ہوا وہ مضامین شائع نہ ہوئے چنانچہ بعض واپس شدہ مضامین اب تک میرے پاس موجود ہیں طلوعِ اسلام سے تعلقات پیدا ہونے کے چند برس کے بعد ہی سے مجھ کو اس کے مسلک سے اختلاف ہوا تو میںنے کسی اور رسالے میں اپنے اختلافی مضامین شائع کرانے کے بجائے نجی طور پر مراسلت شروع کی اور اپنے اختلاف سے مطلع کرتا رہا کیونکہ اس طور پر افہام وتفہیم سے اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ رسائل و جرائد میں ردّ و قدح کا ہنگامہ برپا کیا جائے اس لیے کہ ایسی صورت میں مناظرے اور ضد کی نوعیت پیدا ہوجانے کا قوی امکان ہوتا ہے ، چنانچہ بہت سے مسائل پر نجی خطوط کے ذریعہ مسلسل افہام و تفہیم کرتا رہا اور یہ صورت حال امسال تک جاری رہی ۔


بلاغ القرآن 
١٣٨٧ھ میں جب میں کراچی گیا تھا اور وہاں چھ ماہ تک قیام رہا ، تو اسی قیام کے زمانے میں ، رسالہ '' بلاغ القرآن '' کا تعارف ہوا جس کا مفصل ذکر رسالہ الصلوٰة پر تبصرہ میں موجود ہے ۔ اعادہ بے سود ہے ، اس ادارے کی روش نے مجھ کو بے چین کردیا یہاں تک کہ میں ایک ایسی تصنیف میں مصروف تھا جس کواس وقت کی بہت اہم دینی خدمت سمجھتا تھا اور بہت کچھ لکھ چکا تھا ،لیکن اس کو چھوڑ کر اس ادارے کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے بعد گہری نظر سے طلوعِ اسلام کے مطالعے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو میں یہ سمجھنے پرمجبور ہوا کہ دونوں کی ایک ہی راہ ہے فرق اتنا ہے کہ بلاغ القرآن دوڑ رہا ہے اس لیے اس کی دوڑ نمایاں ہے اورطلوعِ اسلام بہت دبے پائوں جارہا ہے ، قدم ذرا کھسکساتا ہوا اس لیے وہ دور سے دیکھنے والوں کو کھڑا ہی نظر آتا ہے ۔

صرف قرآن کریم 
ادارہ بلاغ القرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صرف قرآن کریم اترا ، قرآن کریم کے علاوہ کسی قسم کی وحی بھی آنحضرتﷺ کی طرف اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں فرمائی ۔ سنّت اگر کوئی چیز واجب الاتباع ہوتی تو قرآن کی طرح رسول کریم ﷺ ضرور اس کو بھی لکھوا کہ کتابی صورت میں قرآن کریم کے ساتھ امت کو دے جاتے ۔ اس لیے سنّت کہاں ہے ؟ کس کتاب میں ہے ؟ کوئی ایسی کتاب دکھائیے جس میں تمام فرقوں کی متفق علیہ سنت ہو جس کے کسی جز سے کسی فرقے کو اختلاف نہ ہو ، اور طلوعِ اسلام کا مؤقف بھی یہی ہے ۔ ان کے اس سوال کا جواب تو میرے رسالہ '' السنة'' میں ہے یہاں اعادہ بے فائدہ ہے مگر یہاں مجھ کو صرف یہ دکھانا ہے کہ صرف قرآن کریم کو قبول کرنے اور باقی سب چیزوں کو روایت کہہ کر ٹھکراتے رہنے سے ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟

اصل مقصد
قرآن مجید کو قبول کرلینے اور باقی سارے دینی لٹریچر کو ردی قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی آیتوں کو توڑ مروڑ کر جو مفہوم جس آیت سے چاہیں گے نکال لیں گے ، جس لفظ کے چاہیں گے معنی حقیقی کی جگہ مجازی لے لیں گے، جس واقعے کو چاہیں گے خواب کا واقعہ کہہ دیں گے، جس عبارت میں ضمیر جدھر چاہیں گے پھیر دیں گے ، جس اسم اشارہ کا جس کو چاہیں گے مشار الیہ قرار دیں گے ، جس لفظ کے متعدد معانی لغت والوں نے لکھے ہیں ان میں سے جو معنیٰ چاہیں گے حسبِ دلخواہ مرادلے لیں گے، اس طرح قرآن مجید کی آیتوں کو اپنے منشا اور اپنی اغراض کے تابع رکھنے کی پوری آزادی حاصل رہے گی ۔ دوسروں نے کیا لکھا ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ دوسرے تو سب کسی نہ کسی فرقے کے ہیں اور فرقہ وارانہ روایات کے پابند ہیں اور یہاں روایات کے اتباع کو گمراہی بلکہ شرک سمجھتے ہیں اس لیے ان '' مشرکین '' کی تفسیروں اور ترجموں کو دیکھنا بھی گناہ ہے ۔ ہاں ! ان میں سے اگر کسی کا کوئی قول ایسا مل جائے جس سے اپنے خیال کو تقویت ہو تو البتہ اس کو پیش کریں گے بلکہ ضعیف سے ضعیف روایت اور کسی منافق راوی کا قول بھی اپنے موافق مل جائے گا تو اس کو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کریں گے اور کہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ( وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰن ) ہم نے ضرور اس قرآن کو آسان کردیا ہے تو پھر انسان کے سمجھنے میں دشواری کیوں ہوگی ؟ ہم جو مطلب جس آیت کا سمجھے ہیں صحیح ہی سمجھے ہیں ۔ آسان بات کے سمجھنے میں غلطی نہیں ہوسکتی ۔ مگر قرآنی آیات کو سمجھنے کی کوشش کب کی جاتی ہے ؟ ساری کوششیں تو آیات سے اپنے موافق مفہوم پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں اس لیے ضرورت ہوئی کہ اس فرقے کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جائے ۔ خصوصاً اس لیے دیکھ رہا ہوں کہ کوئی صاحبِ علم اس فرقے کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو رہا ۔ صرف '' فتنہ انکارِ حدیث '' کہہ دینے یا بعض رسالوں سے اس فتنہ کا انسداد نہیں ہو سکتا ۔ حدیث کا ثبوت حدیث سے ، روایت کا ثبوت روایت سے منکرینِ حدیث کے سامنے پیش کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے ۔

یہ رسالہ صرف وحی کے اقسام اوروحی غیرمتلو یعنی حدیث صحیح کے ثبوت میں اوردین میں اس کے حجت ہونے کے اثبات میں ہے ۔ اس کے ساتھ اور متعدد رسالے ہیں جن میں '' السنة '' میں اتباعِ سنّت کی فرضیّت ازروئے آیات قرآنی ثابت کی گئی ہے ۔ گویا وہ اس رسالے کا دوسرا حصہ ہے ۔ ( اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ  ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ  ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ  )
وحی 
آلات تکلم یعنی لب و زبان و کام و دہن کے واسطہ کے بغیر جو باتیں کی جائیں اس کو ازروئے لغت وحی کہتے ہیں ۔ 

سورہ مریم میں حضرت زکریا کے ذکر میں فرمایا گیا ہے:
فَاَوْحٰٓى اِلَيْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِـيًّا  11؀مریم
حضرت زکریا کو خبر دی گئی تھی کہ تم تین دن کچھ نہ بول سکو گے یہی علامت ہے اس کی کہ اب تم کو ایک پسر (بیٹا) صالح اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا ۔  تو وہ مسجد سے نکلے اور اپنے لوگوں کو اشارے سے انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح صبح و شام کیا کرو ۔ 

اللہ تعالیٰ کا ہر کلام وحی ہے اس لیے کہ آلات تکلم کی حاجت اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے وہ بغیر آلات تکلم کے کلام فرماتا ہے ۔ غیر ذوی العقول کی فطرت میں بعض امور جو داخل کردیئے گئے ہیں ان کو بھی وحی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، جیسے:  
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ )(  النحل : ٦٨ )
"اور تمہارے رب نے شہد کی مکھیوں کی طرف وحی کردی ہے کہ وہ پہاڑوں ( کے کسی حصے ) میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں ( یا چھتوں ) میں گھربنائیں ۔" 
یا کائنات کے آغازِ تخلیق کا ذکر سورئہ حٰم سجدہ کی آیتِ کریمہ ١٠ ، ١١ ، ١٢ میں فرماتے ہوئے آسمانوں کی تکمیلِ تخلیق کے بعد فرمایا ہے ( وَ اَوْحیٰ فِی کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا ) اورہر آسمان ( اور اس کے ماتحت کی کائنات ) میں سارے متعلقہ قوانین تفویض فرمادیئے ( تاکہ ان قوانین کے مطابق کارخانہ کائنات چلتا رہے ) یہاں تفویض احکام و قوانین کو وحی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر یہ مضامین اس وقت میرے موضوع سے خارج ہیں میرا موضوع وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی ہے ۔ 

غیر رسول کی طرف وحی 
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیررسول کی طرف بھی وحی ہوتی ہے بذریعہ القاء فی القلب یعنی دل میں بات ڈال کر ۔

قرآن مجید میں ہے :
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ  ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ   القصص 7
"اورہم نے مادرِ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اس کو دودھ پلائو تو جب اس کے بارے میں تم پر خوف و ہراس غالب ہو تو اس کو دریا میں ڈال دو اور کچھ پروا اس کے بارے میں نہ کرو ۔"
 یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں جو بات ڈالی گئی تھی اس القاء فی القلب کو وحی کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ۔ اسی طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے ایک کنوئیں میں ڈال دیا تو اس وقت وہ کمسن مراہق نابالغ تھے ، نبی و رسول نہ تھے ۔ مگر قرآن مجید میں ارشاد ہے : 
 وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ           15؀
 " اور ہم نے وحی کی یوسف کی طرف کہ ( گھبرائو نہیں ) تم ضرور ان لوگوں کو ان کی اس حرکت سے ( کسی وقت ) ضرور متنبہ کرو گے اور یہ سب ( اس کو ) نہیں سمجھتے ہیں ۔" ( یوسف : ١٥
القاء وحی شیطانی بھی ہوتی ہے 
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ ) ( انعام :١٢١)
" شیاطین اپنے ( انسانی ) ساتھیوں کی طرف وحی کیا کرتے ہیں ) ۔ "
اس لیے ہر شخص ایسی باتوں کو جو اس کے دل میں القاء ہوجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہ سمجھ لے اس کے لیے بھی منہ چاہیئے ، ایسے مکاشفے کہ جب ذرا گردن جھکائی لوحِ محفوظ تک نظر پہونچ گئی محض افسانہ طرازی ہے ۔ کسی نبی کو یہ اختیار نہ تھا کہ غیب کی کوئی بات بطورِ خود دریافت کرلیں یا کسی فرشتے کو جب چاہیں بلوالیں ، کسی بات کی وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب چاہیں منگوالیں ، تو کسی غیر نبی کو یہ اختیار کب حاصل ہوسکتا ہے ۔ بعض فرقوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے اماموں کو اسمِ اعظم معلوم تھا اور وہ اسمِ اعظم کے ذریعے غیب کی جس بات کو چاہتے تھے دریافت کرلیتے تھے یہ ساری باتیں سخت گمراہ کن ہیں ۔ البتہ مومنین صالحین کو بلا ارادہ غیرمتوقع طور پر کسی بات کا اگر اتفاقاً انکشاف ہوجائے تو وہ منجانب اللہ ہوسکتا ہے ۔ بشرطیکہ قرآن مجید اور سنّت ثابتہ کے یا تجربہ یا عقل کے خلاف کوئی بات نہ ہو ۔ 

عُجب و غرور 
بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے قبل از وقت بلا ارادہ غیر متوقع کشف سے نفس میں عُجب و غرور پیدا ہو تو سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اس کے پاس معلومات کے ذرائع انسانوں سے زیادہ ہیں اس نے ایک مردِ مومن صالح کو عُجب و غرور میں مبتلا کرکے اس کے نفس کو خراب کرنے کے لیے ایسی وحی کی ہے فوراً توبہ کرے اور اپنے نفس کو عجب و غرور سے پاک کرے ۔ 

منجانب اللہ وحی 
اللہ تعالیٰ جو اپنے صالح بندوں پروحی فرماتا ہے اور اپنے مکالمے سے سرفراز فرماتا ہے اس کو قرآن مجید میں خود وضاحت کے ساتھ فرمادیا ہے ۔ سورئہ شوریٰ کی آخری تین آیتیں پڑھئے :
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ       51؀ وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ       52؀ۙ
صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اَلَآ اِلَى اللّٰهِ تَصِيْرُ الْاُمُوْرُ       53؀ۧ  شوریٰ 51- 53
کسی بشر کا ( وہ نبی و رسول ہی کیوں نہ ہو ) یہ منہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے دو بدو ہوکر بجز اس کے کہ یا تو ( بلا توسط کسی فرشتے کے القاء یعنی دل میں بات ڈال کر یا خواب کے ذریعے ) وحی فرمائے یا پردے کی اوٹ سے یا کسی فرشتے کو بھیج کر کہ اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے ( اس کے نبی کے پاس ) وہ فرشتہ اس کی وحی پہونچائے بیشک اللہ تعالیٰ بہت بلندہے ( اس سے کہ کوئی اس سے بالمشافہ بیداری میں روبرو ہو کر باتیں کرے ) وہ حکمت والا ہے ( بندوں کے منافع و مصالح کے پیشِ نظر وحی کی تین صورتیں اس نے قائم کردی ہیں ) ( اے رسول ) ہم نے اسی طرح تمہاری طرف اپنے دین کا پر عظمت کلام وحی کیا ہے تم تو ( اے رسول ) جانتے بھی نہ تھے کہ ( اللہ تعالیٰ کی ) کتاب کیسی ہوتی ہے بلکہ (١) تم ایمان کی حقیقت سے کچھ واقف نہ تھے لیکن ہم نے اس ( کلام ) کو روشنی بنایا ہے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں گے اس کے ذریعے ہدایت کریں گے اور تم ( اس کلام کے ذریعے ) بلاشبہ صراطِ مستقیم ہی کی طرف ( لوگوں کی ) رہنمائی کرو گے ۔ اس راہ کی طرف جو اللہ کی راہ ہے ( وہ اللہ ) جس کی ملک میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ( اے جن و انس ) سن رکھو کہ سارے امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع ہوکر رہیں گے (٢)"

اوّل و آخر
اول بآخر نسبتے دارد اسی طرح آخر بھی اوّل سے ضرور مناسبت رکھتا ہے اس لیے سورئہ شوریٰ کی ان آخری تین آیتوں کے ساتھ حروف مقطعات کے بعد کی پہلی آیت کو بھی پیشِ نظر رکھ لیجئے پہلی اور دوسری دو آیتیں تو حروف مقطعات کی ہیں اس لیے شمار کے حساب سے یہ تیسری آیت ہے اور آیت مقطعات کے بعد پہلی آیت ہے :
كَذٰلِكَ يُوْحِيْٓ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۙ اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ      Ǽ۝
  لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ      Ć۝
شوریٰ 3-4
''عزت و حکمت والا اللہ اسی طرح تمہاری طرف وحی کر رہا ہے (جس طرح یہ وحی اس وقت ہورہی ہے) اور جو (نبی) تم سے پہلے گزرے (ان کی طرف بھی اسی طرح وحی کرتا رہا) .............''
غرض وحی کے تین طریقے بتائے گئے ۔
( ١) القاء جس کو الہام بھی کہتے ہیں ۔

( ٢) پردے کی اَوٹ سے جس طرح حضرت موسیٰ علیٰ نبینا علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے باتیں کیں ۔

( ٣ ) تیسرا طریقہ جو انبیاء و مرسلین علیہم السلام میں برابر معمول بہ رہا ہے یعنی فرشتے کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنا کلام اپنے نبی اور اپنے رسول کے پاس بھیجے ۔ان تینوں طریقوں سے انبیاء و مرسلین کے پاس وحی آتی تھی ۔ علیہم السلام۔ مگر آخری دونوں طریقے انبیاء علیہم السلام کے لیے مخصوص تھے ۔ 

پہلا طریقہ القاء و الہام کا جو بیداری میں بھی ہوتا تھا اور خواب میں بھی ۔وہ غیر نبی ، مومنین و صالحین کو بھی نصیب ہوسکتا ہے مگر غیر نبی کا الہام اور خواب محض کسی وہم کے تحت ، تخیلات کے زیرِ اثر اور شیطانی وسوسے سے بھی ہوسکتا ہے مگر کسی نبی کا الہام یا خواب غلط نہیں ہوسکتا وہ من جانب اللہ وحی ہی ہوتا تھا اس لیے حج کے ارکان میں سر کا منڈانا یا سر کے بال تراشنا بحیثیت فرض کے داخل ہے باوجود اس کے کہ کوئی آیت حکم حلق یا قصر کی قرآن مجید میں نہیں ہے صرف رسول اللہ ﷺ کے ایک خواب مبارک کا ذکر سورة فتح کے چوتھے رکوع میں ہے :
لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ لَا تَخَافُوْنَ ۭ
''بہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ضرور سچا خواب دکھایا ہے اپنے رسول کو مبنی بر حقیقت کہ تم لوگ ( اے مومنین )ضرور داخل ہوگے مسجدِ حرام میں ( بعضے) سر منڈوانے والے اور ( بعضے ) بال کتر لینے والے ، امن و امان کے ساتھ بغیر کسی خوف و ہراس کے ۔"
اس خواب کے ذکر کی وجہ سے حج کے ارکان مفروضہ میں حلق یا قصر داخل ہوگیا ۔ 
وحی را بہتر کہ فہمد از رسول 
جس پر وحی اتری ہے وہی توا س وحی کا مخاطب اولیٰ ہے چاہے وہ وحی کتابی ہو یا غیر کتابی یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ خود رسول نے اس وحی کا کیا مفہوم سمجھا تھا اور احکام وحی کی کس طرح تعمیل فرمائی تھی رسول صرف مبلغ کتاب بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ معلّم اور مبینِ کتاب بھی تھے اس لیے تعلیم و تبیین رسول سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہ سمجھنا اور بطور خود اپنی خواہش کے مطابق آیات قرآنی کی تفسیرکرنا سخت گمراہی اور بدترین الحاد ہے ۔ 

انبیاء سابقین کی طرف غیر کتابی الہامی و القائی وحی 
سورة مومنون آیت ٢٧ میں ہے :
فَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
''تو ہم نے نوح کی طرف وحی کی کہ تم کشتی تیار کرو ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ۔''
کیا حضرت نوح پر جو کتاب اتری تھی اس کتاب میں کشتی بنانے کا حکم آیا تھا اور کشتی بنانے کا طریقہ بتایا گیا تھا ؟ یقینا یا تو القاء و الہام کے ذریعے ان کو حکم بھی ہوا اور کشتی بنانے کا طریقہ بھی بتایا گیا یا کسی فرشتے کو بھیج کر زبانی حکم بھی فرشتے نے سنایا اور فرشتے نے حکم ربانی کے مطابق کشتی بنانے کا طریقہ بھی بتایا ۔ بہر حال غیر کتابی ہی وحی تھی ۔ 

سورة اعراف ( آیت ١٦٠ ) میں ہے :
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰي مُوْسٰٓي اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ
 ''اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی جس وقت ان کی قوم نے ان سے پانی کا مطالبہ کیا تھا اس پتھر پر اپنے عصا سے مارو ۔''
کیا ان کے صحیفوں میں کوئی آیت اس وقت اس حکم کی اتری تھی ؟ یقینا قوم نے پانی کا مطالبہ کیا تو ان کے دل میں القاء و الہام ہوا کہ سامنے جو پتھر ہے اس پر عصا سے مارو یا فرشتے نے آکر حکم سنایا ، تورات میں اس واقعے کا ذکر ہے جس طرح قرآن مجید میں اس وقعے کا ذکر ہے تورات میں پتھر پر عصا سے ضرب لگانے کے حکم کی کوئی آیت نہیں ہے یہ غیر کتابی وحی تھی ۔ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ السلام کے متعلق اور بھی کئی جگہ وحی کا ذکر ہے جو فوری طور پر القاء و الہام کے ذریعے ہوئی یا فرشتے کے ذریعے بھیجی گئی تھی ۔ تورات میں ان واقعات کا بعد وقوع ذکر ہے جس طرح قرآن مجید میں ان واقعات کا ذکر ہے ۔ حکم کی آیتیں اس میں نہیں ہیں ۔ غرض انبیائے سابقین علیہم السلام پر تینوں اقسام کی وحی آتی رہیں اور ارشاد ہوا ہے :
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ  ۚ  وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا     ١٦٣؀ۚ نساء : ١٦٣
" (اے محمد رسول اللہ ﷺ ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح ہم نے نوح کی طرف اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف وحی کی تھی اور ( جس طرح ) ابراہیم اور اسمٰعیل اور یعقوب ( اور ان کے بارہ بیٹے ) اسباط اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی تھی اور تم کو قرآن دیا جس طرح ہم نے دادود کو زبور دیا تھا ۔"
اس آیتِ کریمہ میں گیارہ انبیائے مرسلین علیہم السلام کے اسمائِ گرامی مذکور ہیں اور بارہ اسباط یعنی حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تو تئیس انبیاء علیٰ نبینا و علیہم السلام کا ذکر فرما کر ارشاد ہوا ہے کہ جس طرح ان لوگوں کی طرف ہم نے وحی کی تھی اسی طرح تمہاری طرف بھی وحی کی ہے ان ٢٣ نبیوں میں سے صحفِ ابراہیم و صحفِ موسیٰ ( تورات ) اور انجیل و زبور کا ذکر قرآن مجید میں صراحةً موجود ہے ۔ حضرت نوح پہلے رسول ازروئے قرآن مبین تھے اس لیے ان پر کوئی کتاب ضرور اتری تھی ۔ سورئہ بقرہ کی آیت ٢١٣ میں آغاز سلسلہ بعثت انبیاء علیٰ نبینا علیہم السلام کا ذکر فرمایا ہے ۔ 
فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ  ۠ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ
میں صاف مذکور ہے
'' تو اللہ تعالیٰ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے نبیوں کو مبعوث کرنا شروع کیا اور ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری ۔''
حضرت نوح تو پہلے رسول تھے اس لیے ان پر ضرور کتاب اتری تھی البتہ بیک وقت کئی نبی بھی پہلے مبعوث ہوتے تھے ۔ تو ان میں سے ایک پر کتاب اترتی تھی اور سب ہمعصروں کی وہی کتاب ہوتی تھی ، جس طرح حضرت موسیٰ و ہارون پر الگ الگ کتابیں نہیں اتری تھیں ، حضرت موسیٰ کے وہ وزیر تھے مگر ان پر غیر کتابی وحی اترتی تھی اس لیے اس آیت میں ان کا بھی اسم گرامی ہے اور بھی انبیاء اس آیت میں مذکور ہیں ۔ خصوصاً اسباط کہ ان میں کسی پر بھی کوئی کتاب نہیں اتری تھی ۔ حضرت سلیمان پر بھی کوئی کتاب نہیں اتری ان سب پر غیر کتابی وحی ہی اترتی رہی تو جب رسول اللہ ﷺ کو فرمایا گیا کہ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح ان ٢٣ غیر نبیوں کی طرف وحی کی تھی تو اگر آنحضرت ﷺ کی طرف قرآن مجید کے سوا دوسری اور کسی قسم کی کوئی وحی نہیں ہوئی تو اسباط و ہارون و سلیمان علیہم السلام کے ساتھ تمثیل تو صحیح نہ ہوگی ۔ ایسے انبیاء علیہم السلام کے مماثل حضور ﷺ کو قرار دینا جن پر کوئی کتابی وحی اتری ہی نہ تھی ،غیر کتابی ہی وحی اتری تھی ۔ ان کے ساتھ صاحبِ وحی ہونے میں آپ کی مماثلت جبھی صحیح ہوسکتی ہے کہ آپ پر بھی غیر کتابی وحی آئی ہو اس لیے یہ آیتِ کریمہ اس کی واضح دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ پر وحی غیر قرآنی بھی ضرور اترتی رہی ہے وحی غیر قرآنی کا انکار اس آیت کریمہ کا انکارِ صریح ہوگا ۔
غیر قرآنی وحی کی دوسری قرآنی شہادت 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(الۗمّۗرٰ   ۣتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ  ۭ وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ    Ǻ۝ الرعد  1
''المر، یہ ( اس آیت سے لے کر آخر سورة تک ) کتاب اللہ کی آیتیں ہیں اور بھی جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے ( سب ) برحق ہے لیکن اکثر لوگ ( سب پر یا بعض پر ) ایمان نہیں لاتے ۔ ( سورہ رعد کی پہلی آیت )''
تلک، اسم اشارہ مؤنث ہے عربی زبان میں غیر ذوی العقول کی جمع کی طرف عموماً واحدمؤنث ہی اسم اشارہ سے اشارہ کرتے ہیں اور ضمیر بھی واحد مؤنث ہی کی پھیرتے ہیں ، اس کو ہرمبتدی عربی دان بھی جانتا ہے ۔ مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ۔ تو  تلک اسم اشارہ واحدمونث صرف صورةً ہے ،مفہوم کے اعتبار سے جمع مونث ہے ، اس کا مشار الیہ اس پہلی آیت سے اس سورة کی آخری آیت تک ہے ۔ یہ طریقہ ہر زبان میں رائج و سائر ہے کہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں پہلے اس کی طرف اشارہ بھی کردیں جیسے کسی سے آپ کہیں ، کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں ۔اتنا کہنے کے بعدجو کہنا چاہتے ہیں وہ پندرہ بیس منٹ میں کہہ ڈالیں ، تو پہلے جملے میں جو '' یہ '' اسم اشارہ تھا اس کا مشار الیہ وہ آپ کی طویل بات قرار پائی جس کو آپ نے ١٥ ، ٢٠ منٹ میں کہہ ڈالا تھا ۔ بالکل اسی طرح یہاں تلک اسم اشارہ ہے اور اس آیت سے آخر سورة تک اس کا مشار الیہ ہے آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ تو الکتاب یعنی کتاب اللہ کی آیتیں ہی ہیں ( الکتاب پر الف لام عوض مضاف الیہ ہے ) مومنین کتاب اللہ پر تو ایمان لا ہی چکے ہیں مگر اس کتاب کے علاوہ بھی وحی تم پر تمہارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے وہ سب برحق ہے ۔ رسول کے خواب کو عام لوگوں کے خواب کی طرح سمجھنا ، رسول کو جو الہام ہو اس کو عام لوگوں کے ذہنوں میں جیسے کوئی بات آجاتی ہے اُس کی طرح سمجھ لینا ، فرشتے نے قرآنی آیات کے علاوہ زبانی کوئی پیغام یا مژدہ آ کہ پہونچایا تو چونکہ وہ قرآنی آیت نہیں ہے اس لیے اس کو وحی نہ سمجھنا ۔ ممکن ہے یہ باتیں بعض کم فہموں کے ذہن میں آرہی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تو دلوں کی بات جانتا ہے ان کے ایسے وسوسوں کی اصلاح ضروری تھی اس لیے یہاں وضاحت سے بتادیا کہ جو کتاب اللہ کی آیتیں ہیں صرف وہی نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی بھی جس قسم کی وحی بھی رسول پر نازل کی گئی ہو ، سب وحی ہے اور سب برحق ہے ، اسی لیے '' آیات الکتاب '' پر وقف مطلق ہے یعنی الکتاب پر پہلا جملہ پورا ہوگیا اس کے بعدنیا جملہ وائو استیناف کے ساتھ آیا ہے جس کا عطف جملے پر عطف جملہ بر جملہ ہے عطف لفظی نہیں ۔

اس وقت بھی ایک جماعت ہے جو قرآنی آیات کے سوا کسی قسم کی وحی کو وحی نہیں سمجھتی بلکہ غیرقرآنی وحی کو وحی منزل من اللہ ہی تسلیم نہیں کرتی ، ان کی طرف سے کہا جاسکتا ہے اس آیت کریمہ میں تلک اسم اشارہ ہے جس مشار الیہ اس کے سامنے '' آیات اللہ '' موجود ہے جو معطوف علیہ ہے وائو عطف کے بعد ( وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ  ) معطوف ہے اور یہ عطف ، عطف تفسیری ہے ، یعنی یہ آیات کتاب وہی ہیں جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتاری گئی ہیں ۔ معطوف اور معطوف علیہ مل کر مشار الیہ اور اشارہ مشار الیہ مل کر مبتدا اور الحق خبر ہے ۔ ترجمہ یوں ہو گا : '' یہ آیات کتاب یعنی تمہارے رب کی طرف سے جو تم پر اتاری گئی ہیں ، بر حق ہیں ۔'' ( کتنی صاف نحوی ترکیب ہے ) لہٰذا اس آیہ کریمہ سے غیر قرآنی وحی ثابت نہیں ہوئی یہ استدلال بھی میں نے ان حضرات کی طرف سے پیش کردیا ہے جو صرف قرآن ہی کو وحی کا مصداق قرار دیتے ہیں اور غیر قرآنی وحی کو وحی منزل من اللہ تسلیم نہیں کرتے اگر اس فرقہ میں سے آج تک میں نے کسی کو کسی موضوع پر بھی اپنے مخصوص دعویٰ کے لیے مغالطہ آمیزی سہی مگر سلجھا ہوا استدلال پیش کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہ استدلال بظاہربہت سلجھا ہوا ہے مگر مغالطہ ہی مغالطہ ہے ۔
الجواب 
مذکورہ مغالطہ استدلال نما کا دارو مدار اس دعویٰ پر ہے کہ (آیَاتُ الْکِتَابِ ) اور (  وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ) دونوں ایک ہی ہیں دونوں کے درمیان وائو عطف گویا تفسیر ہی کے لیے آیا ہے ۔ مگر یہ دعویٰ ہی صحیح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ آیات مونث ہیں اسی لیے اس کے لیے مبتدا مونث لایا گیا ہے ۔ تلک آیات الکتاب فرمایا گیا ہے ۔ اگرانہی آیات کی تفسیر الذی انزل ہوتا تو دونوں لفظ مونث لائے جاتے اورالتی انزلت فرمایا جاتا ، پہلا جملہ اپنا مسند الیہ اور مسند دونوں مونث رکھتا ہے اور دوسرا جملہ اپنا مسند الیہ و مسند دونوں مذکر رکھتا ہے ، ایسی حالت میں ایک جملہ دوسرے جملے کی تفسیر کس طرح ہوسکتا ہے ؟ دونوں مذکر ومونث جملوں میں محرمیت ہے باہم عقد و نکاح کی طرح عقد تفسیر نہیں ہوسکتا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں جملوں کا مسند الیہ ایک نہیں ۔ دو ہیں تو پھر دوسرا جملہ پہلے جملے کی تفسیر کس عقل کی رو سے کہا جائے گا ۔
بڑی مصیبت 
یہ ہے کہ ہرزبان کی صرف ہے ، نحو ہے ، معانی ہے ، بیان ہے جن کے ماتحت کسی زبان کی عبارت سمجھی جاتی ہے مگر معانی و بیان کو تو یہ مدعیان قرآن فہمی جانتے بھی نہیں کہ ان دونوں فنون کے موضوع اورمباحث کیا ہیں ، معمولی صرف و نحو سے بھی واقف نہیں الف لام کی قسمیں بھی نہیں جانتے وائو تفسیر اور'' من '' ابتدائیہ کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ۔ مگر قرآنی آیات کی کسی قدر دوسروں کے اردو ترجموں سے سمجھ کر مجتہد بن گئے ہیں اور جس آیت سے چاہتے ہیں اپنے مطلب کے مطابق کھینچ تان کر مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ان کے سامنے معانی و بیان کو تو چھوڑیئے ، نحوی مسائل کے غوامض بھی بیان کیجئے گو ان کے سمجھنے کی بھی ان میں صلاحیت نہیں اور ضد ہٹ دھرمی اور ناخدا ترسی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں اور قرآن میں اجتہاد کے لیے صرف و نحو اور معانی و بیان وغیرہ علوم سے کماحقہ واقفیت کے ضروری سمجھے جانے پر '' اٹھارہ علوم کا پشتارہ '' کی پھبتی کسی جاتی ہے ۔ دعویٰ یہ ہے کہ میں نے قرآن مجید میں غور و فکر کرتے ہوئے زندگی بسر کی ہے ۔ کاش اس سے پہلے اور کچھ نہیں تو کافیہ اور مختصر المعانی ہی کسی سے پڑھ لیا ہوتا اس کے بعد قرآن مجید پر غور کرتے ۔ 

بیس پچیس برس قرآن مجید پر غور کرتے ہی بسر کیے تو اس لیے نہیں کہ یہ معلوم کریں کہ قرآن مجید کیا ارشاد فرماتا ہے بلکہ اس لیے کہ ڈارون کی تھیوری کو کس طرح قرآنی آیات سے ثابت کریں اور لینن و مارکس کے نظریوں کا ثبوت کس طرح قرآنی آیات سے پیدا کریں اس لیے جو شخص سیاہ عینک آنکھوں پر لگا کر دیکھے گا تو ساری فضا اس کو سیاہ ہی نظر آئے گی ایسے لوگ تلک آیات الکتاب اورالذی انزل کو ایک قرار دیں تو کیا تعجب ہے ؟ غرض کسی طرح بھی  تلک آیات الکتاب اور الذی انزل الیک من ربک دونوں سے ایک چیز مراد نہیں لی جاسکتی ۔ دونوں کے دو مفہوم ۔ آیٰت الکتاب خاص ہے اور الذی انزل الیک من ربک عام ہے جس میں آیٰت الکتاب بھی داخل ہیں دونوں کے درمیان وائو اضراب بھی کہا جاسکتا ہے '' بلکہ '' کے معنیٰ میں ، یعنی آیت کا ترجمہ یوں کیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا ، '' یہ آیتیں ( جو یہاں سے آخر سورة تک چلی گئی ہیں ) جو کتاب اللہ کی آیتیں ہیں ، یہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ جو کچھ بھی تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے ، سب برحق ہیں وائو عطف اضراب کے لیے قرآن مجید میں متعدد جگہ آیا ہے جیسے :
وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ 
'' تم نہیں ہوتے کسی کام میں اور نہیں ہوتے اس ( کتاب ) سے کچھ قرآن پڑھتے بلکہ نہیں ہوتے کسی عمل کو بھی کرتے ہوئے کہ ہم موجود ہوتے ہیں جس وقت اس میں تم لوگ مشغول ہوتے ہو ۔ '' (یونس : ٦١ )
اس آیت کریمہ میں ولا تعلمون پر وائو اضراب ہی کے لیے ہے بلکہ کے معنیٰ میں ۔ اسی طرح او بھی اضراب کے لیے آتا ہے جیسے- تاب قوسین او ادنیٰ -میں او بلکہ ہی کے معنیٰ میں ہے اضراب کے لیے لایا گیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں میرے ذہن میں ہیں ۔ 
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔ 



 حواشی

(١) وائو اضراب کے لیے بھی بلکہ کے معنی میں بھی آتا ہے قرآن میں متعدد جگہ وائو اور اَوْ اضراب کے لیے '' بلکہ '' کے معنی میں آیا ہے آگے ایک اور آیت میں ہے ۔
(٢) اس چودھویں صدی ہجری میں ایک مدعی نبوت جو اپنے آپ کو امتی نبی و ظلی و بروزی نبی کہتے تھے اللہ تعالیٰ سے '' عریاں مکالمہ '' کے مدعی تھے ان کی تصنیفات میں ان کا یہ دعویٰ بڑے زوردار الفاظ میں موجود ہے معلوم نہیں '' عریاں مکالمہ '' سے ان کی کیا مراد ہے ۔ یہ کچھ عجیب و غریب لفظ بھی ہے ۔ یعنی قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں مکالمہ نبی کی جو تین صورتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے کسی صورت کو '' عریاں مکالمہ '' نہیں کہہ سکتے ۔ مجھ پر ان کے جھوٹے دعویٰ کی حقیقت پہلے پہل ان کے '' عریاں مکالمہ '' ہی کے دعویٰ سے واضح ہوگئی تھی ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے