جمعرات، 23 اگست، 2012

عبرانی زبان

الواقعۃ شمارہ #1

پروفیسر محمد طارق


عبرانی زبان




عبرانی Hebrew اور یسوانی زبانیں عربی زبان کی قریبی رشتہ دار ہیں ۔ برصغیر میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ عبرانی و یسوانی زبانیں معدوم ہوچکی ہیں ، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔

عبرانی ، یسوانی اور لاطینی زبانیں اس اعتبار سے معدوم ہوچکی ہیں کہ ان کو دیگر زبانوں کی طرح بولا نہیں جاتا ہے لیکن ان کا سرمایۂ ادب Litrature موجود ہے اور یورپ میں باقاعدہ
ان کی تعلیم یونی ورسٹیز میں دی جاتی ہے ۔ اسی طرح انگریزی کی اصل انگلو سقسن Anglo-Sexon بھی اپنے ادب کے ساتھ موجود ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ ہم نے قدیم ترکی اور عربی کو تعلیم کے اعتبار سے ترک کردیا ہے مگر یورپ نے اپنے تمام سرمایہ ادب کو محفوظ رکھا ہے ۔ 

عبرانی زبان عربی سے کافی ملتی ہے ۔ اسرائیل میں اس کی تحقیق میں کافی کام ہوا ہے ۔ عبرانی کے ہر لفظ کو ایک عدد دیا گیا ہے جو ایک سائنسی طریقہ ہے ۔ اسی طرح یسوانی زبان شام کے چند علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ 

عبرانی زبان میں ٢٢ حرف ہیں ۔ یہ زبان دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی ہے ۔ اس کا شمار دنیا کی قدیم زبانوں میں ہوتا ہے ۔ مذہبی لحاظ سے بھی یہ زبان انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ عبرانی زبان مختلف زمانوں میں رسم الخط کی تبدیلی کے مرحلے سے بھی گزری ہے ۔ اس زبان کو اسرائیل میں قانونی حیثیت حاصل ہے ۔ 

عبرانی کا حرف اوّل الف ریاضی میں بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ عبرانی تین رسوم الخط میں لکھی جاتی ہے :

(١) قدیم عبرانی خط
(٢) سامی خط
(٣) عربی خط

قدیم عبرانی خط کو متروک کردیا گیا ہے اور اب سامی خط اس کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔ عربی خط کو ترک کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب عبرانی کو بآسانی سیکھ سکتے تھے غالباً اہل عرب کو عبرانی سے دور رکھنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ عربی رسم الخط کو عبرانی کے لیے استعمال کرکے علماء میں اس کی تعلیم و تعلم کے دروازے کھول دیں ۔ نیز یونانی کو عربی رسم الخط میں لکھ کر یونانی زبان کے حصول بھی عربی داں حضرات کے لیے آسان کر سکتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ علماء بلاواسطہ یہود و نصاریٰ کے اصل مآخذ تک رَسائی کرسکیں گے ۔ یہود و نصاریٰ کی مذہبی زبان میں معتبر ترین ذریعے سے اسلام کا پیغام پہنچاسکیں گے ۔ 

بائبل کے جو بھی تراجم انگریزی ، اردو ، فرانسیسی ، فارسی وغیرہا میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کا مآخذ عبرانی و یونانی بائبل ہیں ۔ اگر کسی اردو یا انگریزی ترجمہ اور عبرانی یا یونانی متن میں مطابقت نہ ہو تو علمائے یہود و نصاریٰ ترجمہ کو اصل متن کے مقابلہ میں مسترد کردیتے ہیں ۔ 

اب تک مسلمان علماء بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے علماء یونانی و عبرانی تراجم سے بحث کرتے رہے ہیں ۔ صرف ''البشریٰ '' کے فاضل مصنف مولانا عنایت رسول چڑیاکوٹی نے اصل عبرانی متن سے کام لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب تحقیقی اعتبار سے لازوال شہرت ملی ۔ 

موجودہ دور میں جبکہ نصرانی علماء قرآن کے عربی متن کا براہِ راست مطالعہ کرنے لگے ہیں بلکہ قرآنِ پاک کی صرفی و نحوی تراکیب پر اعتراض کرنے کی ناپاک جسارت بھی کرنے لگے تو ہمارے علماء پر لازم ہے کہ وہ بھی یونانی و عبرانی بائبل کا براہِ راست مطالعہ کریں ۔

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے ماخوذ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے