جمعرات، 23 اگست، 2012

قران مجید میں خفیہ شیطانی تنظیموں کی نشاندہی

خرم سلیم

مترجم : ابو عمار محمد سلیم

 

قرآن مجید میں خفیہ شیطانی تنظیموں کی نشاندہی


جس دم شیطان لعین و رجیم اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں اپنی حکم عدولی کی بدولت مردود ہوا اسی دم سے وہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کا دشمن ہو گیا۔ یہ دشمنی آناً فاناً پیدا ہوئی اور اس قدر شدید ہوئی کہ اس ابلیس لعین نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ قسم کھائی کہ وہ رہتی دنیا تک انسان اور اس کی نسل کو ورغلائے گا اور سیدھے راستے سے بھٹکائے گاتاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے یہ ثابت کردے کہ اس نے جس مخلوق کو احسن التخلیق کہا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ اللہ کی خلافت اس کو سونپی جائے اور پھر وقت ضائع کیے بغیر اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے مصروف عمل ہوگیا اور جہاں اس نے اپنی ہی جنس میں سے اپنے حمایتی بنا لیے وہیں اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالنے کے لیے پروگرام ترتیب دیا اور چالیں چلنے لگا۔ کچھ ہی عرصہ میں وہ اپنی شاطرانہ چالوں میں کا میاب ہوااور بھولے بھالے اور اس کے مقابلے میں انتہائی کم عمر اور نا تجربہ کار میاں بیوی کو جنت سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔یہ انسانیت کے خلاف اس کی پہلی کامیابی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک اس نے اور اس کے چیلوں نے لمحہ بھر کے لیے بھی چین نہیں لیا ہے۔
وہ ایسے لوگوں کا انتخاب کر تا ہے جو اپنی فطری طبیعت کی بدولت اللہ کے بتائے ہوئے راستہ سے ذرا بھی بھٹک گئے ہوں۔ وہ فوراً حملہ کرتا ہے اور ان کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے اور سیدھے راستے سے ہٹادیتا ہے۔شروع دن سے لے کر آج تک اس نے اپنا کام انتہائی انہماک اور چابکدستی سے کیا ہے اور ایک بڑا گروہ اپنے حما یتیوں کا تیار کر لیا ہے جو اس کے حکم پر چلتے ہیں اس کے احکام سے ذرا بھی سر تابی نہیں کرتے۔ شیطان کی اس ریشہ دوانیوں اور آدمیت کو بھٹکانے کی عظیم سازشوں کے مقابلہ میں اللہ باری تعالیٰ نے بھی اپنی طرف سے اس کی رشد وہدایت کا راستہ کھلا رکھا اور انسانیت کو بھٹکنے سے بچانے کے لیے پے در پے اپنے رسول اور پیغمبر مبعوث کیے جنہوں نے انسانیت کی اصلاح کی اور آدم کی نسل کو دوبارہ صحیح راستہ پر ڈالنے کی سعی کی اور تعلیم کا اہتمام کیا۔



حق و باطل کی یہ کشمکش انسانی معاشرے میں انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ شروع شروع میں شیطانی کید اور فریب نوزائدہ انسانی معاشرے کے سیدھے سادھے معاملات کی طرح زیادہ پرکار نہیں تھے بلکہ عام فہم تھے۔ وہ تمام عوامل اور چیزیں جن سے انسان ڈرتا تھا اور جن سے اس کو نقصان پہنچتا تھا جیسے درندے ، سانپ ، آگ ، آسمانی بجلی اور موسم کی شدت وغیرہ یا پھر وہ چیزیں جو انسان کے فائدے کی تھیں اور ان سے انسان کو منفعت تھی جیسے گائے ، گھنے اور سایہ دار درخت، سورج اور چاند وغیرہ ان کو ابلیس نے انسان کی نظروں میں بڑی اہمیت دلائی اور ان کی پوجا کروانے لگا تا کہ وہ خوش رہیں اور نقصان دہ چیزوں کے عذاب سے بچا جائے اور منفعت والی چیزیں اپنا فائدہ پہنچاتی رہیں۔بھولی بھالی انسانیت اس کے چال میں آگئی اور ان چیزوں کی  پرستش کرنے لگی اور آج تک ایک بڑی آبادی ان کی پرستش کرتی چلی آرہی ہے۔ مگر جیسے جیسے انسانی ذہن ارتقا پذیر ہوااور ترقی کرتا گیا اور انسانی معاشرہ  نے اپنے علم ، عقل اور تجربہ کی بنیاد پر ایسی فرسودہ اور غیر عقلی شہادتوں پر اعتبار کر نا کم کردیا تو شیطان نے بھی اپنی چال پلٹ دی اور پھر حضرت انسان کو عقلی اور علمی بنیادوںپر پچھاڑنے کے لیے اپنا پلان بنا لیا۔ انسان کو صحیح راستہ پر قائم رکھنے کے لیے اللہ باری تعا لیٰ نے اپنی ہدایت اور اصلاح کا سر چشمہ جاری و ساری رکھا۔اس کے بھیجے ہوئے نمائندے مستقلاً انسان کو سیدھا راستہ دکھاتے رہے اور شیطانی چالوں میں پھنسنے سے بچانے کی سعی کرتے رہے۔


آج کے دور میں شیطان نے اپنے پیروکاروں کا ایک بڑا گروہ تیار کر رکھا ہے جو اس کے احکامات پر دل و جان سے عمل کرتے ہیںاور اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ اس نے اپنے پیرو کاروں کو مختلف گروہوں میں بانٹ رکھا ہے۔ بظاہر یہ سارے گروہ بے ضرر لگتے ہیں اور انسانیت کی بھلائی کے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ان سب کا مطمح نظر شیطان کی پوجا اور اس کے احکامات پر عمل کرنا اور کروانا ہوتا ہے جو انسان کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ان تمام گروہوں کا مقصد واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ ان کے آنے والے بادشاہ مسیح الدجال کی آمد کا راستہ ہموار ہوجائے۔اور اس کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی دنیا میں اس کی بادشاہت کے اعلان اور قیام کے وقت دنیا کے تمام وسائل ان گروہوں کے قبضہ میں ہوں۔ آج کے دور میں جو شیطانی گروہ مصروف عمل ہیں ان میں سے چند مشہور اور فعال سوسائیٹیاں مندرجہ ذیل ہیں:


١۔فری میسن               Free Masons
٢۔ایلو میناٹی                    Illuminati
٣۔اسکل اینڈ بون      Skull and Bones  
٤۔ بوہیمین کلب         Bohemian Club
٥۔ بہائی اور بابی تنظیمیں Babism and Bahai Movements
٦۔قادیانیت    Qadyanism       


وغیرہ وغیرہ


قران مجید فرقان حمید نے نہ صرف یہ کہ اپنے ماننے والوں کے لیے صاف اور واضح الفاظ میںان گروہوں کی نشاندہی بھی کر دی ہے اور انہیں بتا بھی دیا ہے کہ ان کا طریقہ کار کیا ہے بلکہ ان کے فتنے سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے۔سورة البقرہ کے شروع کی آیات میں ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک ایسے گروہ کا تذکرہ کیا ہے جو اجتماعی طور پر فساد برپا کرتے ہیں۔اللہ علیم و خبیر نے ان کے ہدف کو بھی ظاہر کردیا ہے بلکہ ان کے بگڑے ہوئے اعتقادات اور گھناؤنے عزائم کے علاوہ اپنے ہدف کوحاصل کرنے کے طریقہ کار ، اور ان کے انتظامی ڈھانچے کے بارے میں بھی اطلاعات فراہم کر دی ہیں۔اللہ پاک نے تو ان کے سرکردہ لوگوں اور سرغنہ کا بھی پتہ بتا دیا ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام آیات یاجوج ماجوج اور ان کے لیے کام کرنے والے دیگر گروہوں کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ ان کی تفصیل آگے چل کر دیکھتے ہیں۔

شیطانی طریقۂ کار



ابلیس نے اپنے پیروکاروں کو یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں میں گھل مل جایا جائے اور ان کو بھٹکانے اور راستے سے اغوا کرلینے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ کار میں سے کوئی یا سب اپنایا جائے اور اپنا مقصد حاصل کر لیا جائے۔ 

(الف)ظاہری ایمان کا مظاہرہ کرکے: 
 یہ لوگ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے خود کو بھی مؤمنین میں سے ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کا بڑی شدت سے پرچار کرتے ہیں۔ ان کے لیے قران کا بیان ہے:

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ (8) يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (9) [البقرة : ٨-٩]
'' اور لوگوں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ مومنین میں سے نہیں ۔ وہ اللہ اور جو لوگ ایمان لائے انہیں دھوکہ دیتے ہیں ۔ ''
آج کے دور میں یہ طریقہ کار فری میسن والوں کا ہے۔

(ب)ایمان کی جزئیات سے انکار:
 یہ گروہ مؤمنین سے میل جول بھی رکھتا ہے مگر ایمان کی بنیادی جزئیات کا مکمل انکار کرتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عام عوام الناس نے جس ایمان کو اپنایا ہوا ہے ان سے ان کو کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کا اپنا مقام عام لوگوں کی نسبت بہت ارفع اور اعلیٰ ہے۔وہ عام لوگوں کوحقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرنے کو بہت برا جانتے ہیں۔ ان کے لیے قران مجید نے فرمایا:
( وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَاءُ ) [البقرة : ١٣]
'' اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لائیں جیسے یہ بے وقوف ایمان لائے ۔ '' 
یہ رویہ آج کے دور کے ایلومیناٹی کا ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ گیان والے اور اللہ کی کائنات کا رازدان سمجھتے ہیں۔ عام آدمی کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اپنے آپ کو سب پر حاوی سمجھتے ہیں۔

(ج)ذہنی بیماری کی علامات:
 ان لوگوں کے دماغ میں شیطانیت اور خباثت نے بڑی گہری جڑیں ڈال رکھی ہیں۔ ان کی یہ بیماری ناقابل علاج اس لیے ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس بیماری میں شدت سے اضافہ کردیا ہوا ہے۔ ملاحظہ کریں قرآن کا بیان ان کے لیے یہ ہے کہ
( وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَاۗءُ ) [البقرة : ١٠]
''ان کے دلوں میں مرض ہے ، پس اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا ہے ۔ ''
ان کے دلوں کی بیماری میں الٹی منطق ، پیچیدہ قیل وقال ، عجیب و غریب رسوم ، جنسی بے قاعدگیاں وغیرہ شامل ہیں اور یہ سب علامات بوہیمین گروپ اور اسکل اینڈ بونس کے کارندوںکے لوگوں میں  موجود ہیں بلکہ ان کا طرہ امتیاز ہیں۔
(د)منفی رویہ پر مبنی اہداف۔ 
 ان تمام گروہوں میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ اپنے آپ کو صالحین اور ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ جو کچھ یہ کر رہے ہوتے ہیں اسے درست اور اصلاح کا ذریعہ بتا تے ہیں۔ قران پاک نے ان کے اسی رویہ کے بارے میں یوں تبصرہ کیا کہ
( وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَ رْضِ    ۙ   قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ) [البقرة : ١١]
'' اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت برپا کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔''
یہی لوگ تو ہیں جو آج این جی اوز کا روپ دھارکر ہمارے اندر دندنا تے پھر رہے ہیں اور ہماری اصلاح کے کوشاں ہیں۔ ہماری اصلاح ہو رہی ہے یا ہمیں شیطان کے دام میں پھنسایا جا رہا ہے؟
(ذ)خفیہ گٹھ جوڑ اور خفیہ میٹنگ:
ان گروہوں کے سر بر آوردہ لوگ وقتاً فوقتاً آپس میں ملاقاتیں کرتے رہتے ہیںاور اپنی سرگرمیوں سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں ۔ آئندہ کا پروگرام تشکیل دیتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ان کے اس گٹھ جوڑ کو قران نے یوں بیان کیا
( وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ   ۙ   قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ ) [البقرة :١٤]
'' اور جب وہ اپنے شیاطین کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ ''
نیز ملاحظہ ہو سورة البقرة آیت ٦ ٧اور سورہ آل عمران آیت ١١٩، ١٢٠۔
(ر)شیطان ان کا سرغنہ ہے:
 ان تمام گروہوں کے مقامی لیڈر بھی چھوٹے شیاطین ہیں اور اپنے سے بڑے شیطان کے ما تحت ہیں اور اسی کو رپورٹ کرتے ہیں اور ان سب کا سب سے بڑا سرغنہ ابلیس لعین ہے جس تک ان میں سے صرف چند کی پہنچ ہے۔اور اس کا پتہ قران کی اس بات سے چلتا ہے جب قران کہتا ہے 
( وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ ) [البقرة :١٤]
"کہ جب یہ اپنے شیاطین کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔"
قرآن میں یہ پہلا مقام ہے جہاں شیطان کا ذکر کیا گیا ہے ۔وہ بھی بہ صیغہ جمع ۔ اگلے دو حصوں میں ہم یہ ذکر کریں گے کہ یہ شیاطین کس طرح فسادی تنظیموں کو منظم ، متحرک کرکے ان کی قیادت کریں گے ۔ 

ابلیسی اہداف کیا ہیں؟

 اوپر دئے گئے گروہوں اور ان کے مشن کو بغور دیکھا جائے تو ان اہداف کا پتہ چلتا ہے جو یہ لوگ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان سب اہداف کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کو اللہ کی بتائی ہوئی ہدایت سے بھٹکایا جائے اور بنی آدم کو اللہ کی نظروں سے گرا دیا جائے تاکہ یوم آخرت اسے گمراہ ثابت کیا جاسکے اور ابلیس کے بلند بانگ دعوے کو جو اس نے اللہ کے حضور کیے تھے سچ ثابت کردیا جائے۔ چھوٹے گروپوں کے چھوٹے اہداف یہ ہیں کہ پوری دنیا کو ایک ایسی غلامی میں جکڑنے کی طرف لے جا یا جائے کہ انسانیت جہاں بے بس ہوجائے اور پھر آخر میں اس مسیح دجال کی بادشاہت قائم ہوجائے جو فلسطین سے بیٹھ کر پوری دنیا پر بلکہ جن و انس پر شان سے حکومت کرسکے۔ ایسی حکومت جو صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے شایان شان رہی تھی۔آثار قیامت کے احوال اور اس سے قبل ہونے والے جن واقعات کا احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے ان کا جائزہ لینے سے ان شیطانی گروہوں کے ذریعہ سے انجام پانے والے عجیب و غریب واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ سب ابلیس کی مکارانہ ذہنیت اور شاطرانہ چالوں کا شاخسانہ ہے۔عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام شیطانی تنظیموں کا متفقہ ہدف مندرجہ ذیل باتوں کا حصول ہے:


(الف)پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گلوبل ولیج  Global Village  میں تبدیل کردینا جس میں خدائی کا کوئی تصور نہ ہو 


( ب)پوری دنیا میں صرف ایک حکومت کا قیام ہوجو شخصی اور ملکی حدود و آزادی کا خاتمہ کرکے اس تصور کو مٹا دے۔


(ج) دھوکہ دہی ، سازشی اور جھوٹی معیشت کا قیام ہو جائے جس کا دارومدار اس کاغذی کرنسی پر ہو جس کی اپنی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔ یوں بغیر کسی مادی وسائل کے دولت کے انبار لگا لیے جائیں۔


( د )سود کو اس قدر خوش نما بنا کر پیش کیا جائے کہ یہ تمام دکھوں کا مداوا نظر آئے اور انسانیت سود کی زنجیروں میں جکڑ کر بے دست و پا ہوجائے ۔


( ر )ایک ایسا معاشی نظام قائم ہو جائے جس میں زر تجارت نہ سونا ہو نہ چاندی بلکہ ردی کاغذی کرنسی اور پلاسٹک کے کارڈرواج پاجائیں جس کی اپنی کوئی قیمت نہ ہواور جس کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے سرکاری بینک کے زیر انتظام ہو اور ساری دنیا کی دولت صرف یہود کے ہاتھ میں چلی جائے۔ 


( ز )پوری دنیا میں چلائی گئی عورتوں کے حقوق کے نام کی تحریک کو اتنا فعال بنا دیا جائے کہ معاشرہ کا بیلنس بگڑ جائے۔ رات کو دن میں تبدیل کیا جائے۔ لڑکی لڑکی سے شادی کرے یا مرد مرد کے ساتھ۔ جس کا جیسے دل چاہے اپنا وقت گزارے کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ انسانی تقدس بھی پامال ہو اورمعاشرہ سے خاندان کی اکائی کا خاتمہ ہو اور معاشرہ افراتفری میں مبتلا ہوجائے۔


( س )بڑے بڑے اسپورٹس کے مقابلوں کا انعقاد ، نمائشیں ، کھیل تماشے ، ناچ گانے کے کنسرٹس ، مس ورلڈ اور مس یونیورس ، مقابلہ حسن کی تشہیر، ورلڈ کپ کے کرکٹ،  فٹبال اور دیگر کھیل کود اور تفریح کی بھر مار، امریکہ اور دیگر ممالک کے صدارتی انتخابات وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ گویا انسانیت انہیں چیزوں کے گرد گھومنے کا نام ہے ۔ یہی باتیں سب سے اہم ہیں اور ان میں حصہ لینا اور ان کے بارے میں معلومات رکھنا ہی وقت کا سب سے اہم تقاضہ ہے۔ان چیزوں مین جوئے اور سٹے کو شامل کرکے ان کو مزید دلچسپ ، خوشنما اور فائدہ مند بنا دیا جا تا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے لبھاوے میں آجائیں۔پوری دنیا کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اسی کی تشہیر میں لگی رہے اورساری دنیا اسی لہو لعب میں ڈوب جائے۔اسی کو اصل سمجھے۔اور دیکھئے کہ قران نے تو پہلے سے ہی بتا رکھا ہے کہ جب قیامت آئے گی تو لوگ کھیل تماشے میں مشغول ہونگے۔


( ش )ٹی وی اور اس کے دیگر تمام چینل بھی اسی شیطانی پراپیگنڈے کی تشہیر میں لگے ہوئے ہیں۔عریانی ، فحاشی ، بے حیائی، اقدار کی پامالی اور ان سے انحراف کا درس ، بڑوں چھوٹوں کی عزت اور خواتین کی حرمت ہر ایک چیز قربان ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ چینل جو اپنے آپ کو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی اسی دوڑ میں شریک ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہے کہ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی خرافات کو فروغ دے رہے ہیںاور انہی اہداف کے حصول کے لیے شیطان کے چیلوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ یہ نہ تو اسلام کی کوئی خدمت کر رہے ہیں اور نہ اسلامی اقدار اور تعلیمات کو لوگوں تک پہنچارہے ہیں ۔ اگر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان سوالات کا جواب تلاش کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب منفی میں ہی ملے گا۔


١۔ کیا یہ تمام چینل امت کو ایک متحد ہ پلیٹ فارم پر جمع کر رہے ہیں ؟


٢۔ کیا یہ چینل قوم اور امت کی تربیت کر رہے ہیں؟ کیا یہ چینل لوگوں کو اللہ باری و تعالیٰ کی اطاعت کا درس دے رہے ہیں؟


٣۔ کیا اسلام صرف خوش الحانی سے گلا پھاڑ کر نعت خوانی کا نام ہے؟


٤۔ کیا ان چینلز پر علماء نے آکر امت کو اسلامی طرز حکومت کے خدوخال اور انداز حکومت کے بارے میں سمجھایا؟


٥۔ کیا ان چینلز کے ذریعہ اسلامی معاشی نظام کے بارے میں لوگوں کو تعلیم دی گئی اور موجودہ سودی معاشی نظام سے روکا گیا؟


٦ ۔ کیا انہوں نے یہ بات کبھی بھی لوگوں کو بتائی کہ مسلمانوں نے کیا ترقی کی اور یہ کہ مسلمان کولمبس سے قبل امریکہ دریافت کر چکے تھے۔


٧۔ ریڈ انڈین قبیلہ چیروکی سارا کا سارا مسلمان ہو گیا تھا مگر اب سب کو کیوں اور کس طرح عیسائی مذہب میں تبدیل کر دیا گیا۔


٨۔ مسلم اسپین میں مسلمان سائنسدانوں نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور اس کی اس وقت اڑان کی جب کہ مغرب کا اس علم کا باوا آدم لیونارڈو ڈی ونسی  Leonardo Da Vinci  اس کے کئی صدیوں بعد پیدا ہوا۔


٩۔ امت محمدی کو چوبیس گھنٹے کی نعت خوانی ، محفل میلاد اور تلاوت کلام پاک کی بغیر استفادہ کی تلاوت کلام پاک میں محصور رکھنے سے امت کی بھلائی نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قران کریم کے ذریعہ سے لوگوں کی اصلاح کی جائے۔معاشرے سے بے دینی ختم ہو اور اللہ کی حاکمیت قائم ہو۔ قران کے احکامات کو پھیلایا جائے تاکہ معاشی اور معاشرتی مسائل قران و حدیث سے حل کیے جائیں۔نعت خوانی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں اضافہ کا ذریعہ بنے اور آپ کی سنت مطہرہ لوگ اپنی زندگیوں میں ڈال لیں تاکہ معاشرہ ان راستوں پر چل نکلے جو اللہ اور اس کے رسول کا مطمح نظر رہا ہے۔  

شیطانی گروہوں کا ایک اجمالی جائزہ

گو کہ شیطان نے انسان کے دنیا میں آتے ہی اس کو اپنا گرویدہ کرنے اور اس کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردی تھی اور وہ تمام لوگ جو اللہ کے بنائے ہوئے قوانین سے اور قواعد و ضوابط سے برگشتہ ہوئے شیطان کے قبضہ میں آتے چلے گئے۔یوں تو شیطان نے ہر دور میں اپنا گروپ قائم رکھا اور ان کے ذریعہ سے فساد برپا کرتا رہامگر آج کے دور میں جبکہ خاتم النبین کی آمد کے بعد قیامت کے قیام کی بڑی اور واضح نشانی ظاہر ہوگئی تو شیطان کو بھی یہ احساس ہے کہ انسانیت کو بہکانے کے لیے اس کے پاس اب بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ابلیس کی عمر حضرت انسان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس نے آسمانوں کی سیر کی ہے ، فرشتوں کا سردار رہا ہے ، لوح محفوظ کو دیکھ چکا ہے ، اللہ کی سنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکاہے ، انسان سے قبل کی اللہ کی مخلوق پر اللہ کا قہر و غضب اسی کے ہاتھوں نازل ہوا ہے اور وہ اس کی قہاری اور اس کے غصہ کا شاہد ہے۔ اللہ کی قدرت کاملہ کی بہت ساری چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے۔ان چیزوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہم سے زیادہ چالاک اور ہوشیار ہے۔ پھر یہ کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بہت سی ایسی طاقتیں ہیں جو انسان کو ودیعت نہیں ہوئیں۔وہ انسان کو تخلیق کے مرحلہ سے گزرتے ہوئے بھی  دیکھ چکا ہے اور انسانی عقل اور تدبر کو پروان چڑھتے ہوئے بھی اس نے دیکھا ہے۔اسے ہماری ضرورتوں کا بھی علم ہے ، ہماری لالچ کو بھی جانتا ہے، ہماری کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور ہمارے حوصلے کا اور اس طاقت کا بھی اس کو علم ہے جس کا استعمال کرکے ہم آناً فاناً اللہ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں اور اس مالک کائنات کا تقرب ہمیں مل سکتا ہے۔ وہ پوری طرح آگاہ ہے اور ہم سے اچھی پلاننگ تیار کر رکھی ہے۔ اس کو خوف ہماری صرف اسی ایک چیز سے ہے کہ اگر ہم اس کے خلاف ڈٹ جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس پر غالب آنے سے نہیں روک سکتی۔ اسی لیے اس کا تمام پلان ہمیں اس صورت حال میں پہنچنے سے پہلے تھپک تھپک کر سلا دینے کا ہے۔


ابلیس آج اپنے ماضی سے زیادہ متحرک ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں اس نے جتنے لوگوں کو بھٹکایا انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا گیااور اپنا گرویدہ بنا تا چلا گیا۔ اور یوں ہزاروں برسوں کی اس کوششوں نے اسے ایک بہت بڑے گروہ کا سربراہ بنا دیا ہے۔ آج اس کی کوششیں مختلف جہتوں میں کام کر رہی ہیںاور بہت فعال ہیں۔ آئیے ذرا ماضی میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ اس کا طریقہ کار کیا رہا ہے۔

١۔ھاروت و ماروت کا زمانہ( سورة آل عمران)

اللہ پاک نے انسان کی آزمائش کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں دو فرشتوں کو زمین پر بھیجا۔ ان کا مشن یہ تھا کہ وہ  انسان کو ایک خاص علم کی تعلیم دیں۔ یہ علم اچھے کاموں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا تھا اور غلط چیزوں اور مقاصد کے لیے بھی۔ ھاروت و ماروت جب کسی کو یہ علم سکھاتے تو انہیں پہلے سے بتا دیتے کہ یہ علم نہ سیکھو کیونکہ اگر اس کا غلط استعمال کر بیٹھے تو نقصان اٹھاؤگے اور یہ کہ یہ علم انسان کے لیے ایک امتحان ہے۔ شیاطین جن و انس نے جنہیں جادو ٹونے سے دلچسپی تھی انہوں نے یہ علم سیکھا بھی اور اس کا خوب غلط استعمال بھی کیا۔ اس کے ذریعہ سے وہ میاں بیوی میں ناچاقی کرا دیتے تھے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کردیتے۔اوپر سے مستزاد یہ کہ یہ مشہور کر دیا کہ یہ جادو تو خود حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں سکھایا ہے۔چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت جنوں پر بھی تھی اور ان کے پاس ایسی مافوق الفطرت طاقتیں تھیں جو پہلے کبھی کسی کو نہیں ملی تھیں تو ان کا یہ جھوٹ خوب پھیلا یہاں تک کہ قرآن نے شہادت دی کہ اللہ کے رسول کا اس میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس فتنہ کو روکنے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے ایسے تمام مخطوطات کو جمع کیا اور اس کو اپنے تخت کے نیچے دفن کردیا ۔ ( واللہ اعلم)

٢۔ ٹمپلر نائٹس Templar Knightsکا زمانہ

صلیبی جنگ کے دور میں مقدس مقامات کی زیارت کو جانے والے عیسائی زائرین کی حفاظت کے لیے ٹمپلر نائٹس کی تنظیم بنائی گئی۔ یہ لوگ زائرین کو بھی تحفظ دیتے اور جو زائر اپنا مال ان کے حوالے کردیتا وہ اس کی حفاظت کرتے اور یورپ میں جہاں کہیں وہ اپنا سامانٍ واپس لینا چاہتا وہاں کے لیے اس کو ایک رسید مل جاتی اور وہ زائر اس جگہ سے اپنے مال کی مالیت وصول کرلیتا تھا۔یہ موجودہ دور کے بینکنگ کی ابتدائی شکل تھی۔ 


انہی ٹمپلر نائٹس کے بارے میں مشہور ہے کہ حضرت سلیمان کے دفن کیے ہوئے مخطوطات ان کے ہتھے چڑھ گئے اور اس کی بدولت انہوں نے اس جادو کے دور کا احیا کیا جو صدیوں پہلے اللہ کے رسول نے ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے یہودی کبالہ کی رسم کا دوبارہ اجرا کیااور شیطانی پوجاپاٹ کا اہتمام کیا۔ ہم یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ١٣ اکتوبر ١٣٠٧ ء میں ٹیمپلرز پر ایک مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ  شیطان کی پوجا کرتے ہیں ، سدومیت اور دیگر جنسی جرائم میں ملوث ہیں اور دیگر غیر قانونی اور غیر انسانی کام میں بھی ان کا ملوث ہونا ثابت ہوا۔انہیں اس کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔ جو جل گئے سو جل گئے بقیہ جو بچے وہ غائب ہو گئے اور صلیبی جنگوں کے کوئی دو سو سال کے بعد واپس منظر عام پر آئے مگر اس وقت تک ان لوگوں نے ایک ایسا مظبوط اور مربوط بینکینگ سسٹم قائم کرلیا تھا اور سود پر رقم ادھار دے کر اتنے لوگوں کو اپنے چنگل میں گرفتار کر لیاتھا کہ کوئی ان کے خلاف کچھ بول نہ سکتا تھا۔ بڑے بڑے سر بر آوردہ لوگ ، سیاسی شخصیتیں ، بادشاہ اور امراء یہاں تک کہ عیسائی چرچ کے پادریوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان کے دام میں پھنسی ہوئی تھی۔یہ سولہویں صدی کا دور تھا جب انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی جنگ کے دوران انہوں نے اسکاٹ لینڈ کی مالی اعانت کی اور یوں ظاہر ہونے کے بعد اسکاٹ لینڈ میں ان کو مکمل تحفظ مل گیا۔انہوں نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا اور اب فری میسن کہلانے لگے اور اسکاٹ لینڈ میں اپنے عقائد کا پرچار کرنے لگے۔ 


ہم بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ عملیات اور کالا جادو وغیرہ شیطانی کام ہیں۔ جو لوگ ان اعمال کے کرنے میں ملوث ہوجاتے ہیں انہیں اور بھی دیگر بہت سے غلط اعمال کرنے پڑتے ہیں جن میں شیطان کی پوجا اور قران مجید کو الٹا پڑھنا وغیرہ شامل ہیں۔ جب کوئی ایسا کام کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی شیطان اس کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے اور اس کا دوست بن جاتا ہے اور اپنی غیر مرئی طاقتوں سے اس کا ہاتھ بٹا تا ہے۔ چھوٹے موٹے لوگوں کے ساتھ چھوٹا شیطان اور بڑے لوگوں کے ساتھ ان کا بڑا گرگا شامل ہوتا ہے۔اس میں آج کوئی شک نہیں ہے کہ ایلومیناٹی اور فری میسن شیطان کی پوجا کرتے ہیں اور انسانی جانوں کی قربانی دیتے ہیں۔ اسلام کے دور سے قبل بھی دنیا کے معاشرہ میں ان کے دیوی دیوتاؤں مثلاً کالی ، لات و منات وغیرہ کے آگے قربانی دی جاتی تھی اور ان کے قدموں میں خون نچھاور کیا جاتا تھا اور یہ رسم آج بھی جاری و ساری ہے۔امریکہ میں کیلی فورنیا کے مقام مونٹ ریو میں آج بھی دنیا کے سارے '' بڑے ''  اکٹھے ہوتے ہیں اور اس اجتماع کو بوہیمین گروو Bohemian Groove  کا نام دیا جاتا ہے۔ اس اجتماع کے بارے میں وکی پیڈیا یہ کہتا ہے:
''کلب کے قیام کے وقت سے ان کا نشان امتیاز Mascot) (الو ہے جو عقل و دانش کا نمائندہ ہے۔اس گروہ میں ایک تالاب ہے جس کے بالائی حصہ میں الو کا ایک بہت بڑا بت نصب ہے اور اس بت خانے کا ڈیزائین ہیگ پیٹیگیان نے بنایا تھا جو اس کلب کا دو مرتبہ صدر رہ چکا ہے۔ ١٩٢٠ میں اس کی تعمیر ہوئی اور ١٩٢٩  کے بعد سے ہر سال اس کلب کے سالانہ اجتماع میں یہ جگہ قربان گاہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اوراس کلب کا مربی سینٹ جان آف نیپومیک ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ بوہیمیا کے بادشاہ کے ہاتھوں موت قبول کرلی مگر ملکہ کا راز بادشاہ کو نہیں بتایا۔اسی تالاب کے کنارے اس سینٹ کا ایک بڑا مجسمہ نصب ہے اور مجسمے نے اپنے منہ پر انگلی رکھ کر خاموشی اور راز داری کا نشان بنایاہے۔اور یہی رازداری ہے جو اس کلب کا طرہ امتیاز ہے۔''
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کلب دنیا کے صرف بڑے لوگوں کے لیے کیوں وقف ہے۔ اس کی ممبر شپ صدر بش سینیر اور جونیر، ہنری کیسنجر ، جمی کارٹر ، روتھس چائلڈ اور راک فیلر جیسے لوگوں تک کیوں محدود ہے اور پھر یہ کہ دنیا بھر کے اتنے بڑے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اور دنیا بھر کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خاموش رہتا ہے اور اس کی کوئی خبر نشر نہیں ہوتی۔کیوں؟


ہم مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کوئی ستارہ ٹوٹتے دیکھیں تو لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی شیطان آسمان کے کناروں پر آکر چھپ کر کوئی راز حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک انگارہ اس کی طرف مارا جاتا ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ جنات اور شیاطین آسمان کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے مگر ان کے گرد گھومتے پھرتے رہتے ہیںاور آسمانی گفتگو کی سن گن لیتے ہیں۔ کوئی بھنک ان کے کانوں میں پڑ جائے تو یہ لے اڑتے ہیں اور آکر اپنے چیلے چانٹوں کو سناتے ہیں اور چونکہ جن کو وہ یہ سب کچھ بتاتے ہیں ان کے علاوہ کسی عام انسان کو ایسی کوئی خبر نہیں ہوتی اسی لیے شیطان کے یہ چیلے اپنے آپ کو ایلومیناٹی یعنی '' روشن کیا ہوا '' کہلاتے ہیں۔


ابلیس نے ایلومیناٹی کو ایک الگ تنظیم کے طور پر کھڑا کیا تھا مگر بعد میں اس کے کچھ لوگ فری میسن ہوگئے اور ان ہی کے ذریعہ سے 'ایک دنیا ایک حکومت' کا نظریہ پروان چڑھا۔آج ایلومیناٹی گروپ کے چند بڑے ایسے ہیں جن کے پاس دنیا کے مستقبل کا ابلیسی نقشہ موجود ہے جس پر دنیا کو ڈھالا جارہا ہے۔ یہ خفیہ تنظیمیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں اور ان کے تاریخی شواہد بابل کی تہذیب میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔تاریخ میں وقوع پذیر تمام معاملات کے تانے بانے ایک دوسرے کے ساتھ ملائے جاسکتے ہیں جن سے ایک واضح تصویر نظر آتی ہے۔تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو اس میں چند قدیمی دیوتاؤں کا تذکرہ ملتا ہے۔ان میں سے ایک  ' ہورس ' Horus ہے جو مصر کا سورج دیوتا ہے۔ ' انوناکی ' یا مایا تہذیب کا سانپ دیوتا 'کوکلکاں ' ہے ، ہندؤں کے شیوا اور کرشنا سے تو ہم واقف ہی ہیںجو شطرنج کے سیاہ و سفید بساط پر بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ شطرنج کی یہ بساط ماضی میں بھی موجود تھی اور حال میں بھی اس کا ایک اہم رول ہے۔ فری میسن کے تمام لاجز Lodges میں اسی بساط کا فرش بچھا ہوا نظر آتا ہے۔


قرآن مجید فرقان حمید سے ہمیں جنوں کی موجودگی اور ان کے وجود کی اطلاع ملی ہے۔ قرآن ہی بتاتا ہے کہ ان میں مسلمان جن بھی ہیں اور شیطان بھی اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن انسانوں کو دوست بنا تے ہیںاور دونوں ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوتے ہیں۔ جنوں نے ہماری نبی اکرم کے ہاتھوں پر اسلام بھی قبول کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور پاک نے اپنی کسی بھی دنیاوی ضرورت کے لیے جنوں کی مدد طلب نہیں کی۔یہ صرف شیاطین جن ہیں جو شیاطین انس سے ملاپ رکھتے ہیں اور بقول قران ایک دوسرے کے ہمنوا اور دوست ہوتے ہیں۔ مگر ایسے کسی فرد کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو ان سے ملاپ اور اختلاط سے اجتناب کا حکم ملا ہے۔دوسرے مذاہب کے لوگ ان قیود کی پابندی نہیں کرتے۔اور ہماری معلوم جہتDimension  جس میں ہم موجود ہیں سے آگے جا کر دوسری جہتوںTrans Dimensional Contactمیںداخلہ کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی جہتوں کے اختلاط سے شیطان کے پجاری اپنی غیر مرئی قوتوں میں اضافہ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں شیطان کے دست نگر اور آلہ کار بن جاتے ہیں۔ شیطان کی پوجا کرتے ہیں اور اس کی عنایات کے طالب رہتے ہیں۔ آپ انٹر نیٹ پر جاکر شیطان کی پوجا اور اس کی پوجا کے لیے قائم کیے ہوئے چرچوں کے احوال معلوم کر سکتے ہیں۔آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ کس طرح اس کے چنگل میں گرفتار ہوتے ہیں۔ بلکہ یو ٹیوب وغیرہ پر آپ کو بہت سے ایسے لوگوں کے انٹرویو مل جائیں گے جو شیطانی چرچ سے باغی ہوئے اور توبہ کی اور سب کچھ صاف صاف بتا دیا ہے۔ ان شیطانی اعمال میں کچھ ایسے کام بھی شامل ہوتے ہیں جو کسی خاص وقت اور معین تاریخ میں کیے جاتے ہیں۔ ان کے ان عملیات اور قربانیوں کے صلہ میں شیطان ان کو اپنی ابلیسی قوتوں سے نوازتا ہے۔ شطرنج کی بساط جس کا اوپر تذکرہ ہوا اسی اختلاط کو حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسی بساط کی تشہیر آپ کو دنیا کے تقریباً ہر علاقہ میں نظر آئے گی۔ ٹیکسیوں کے اوپر ، پولیس کی ٹوپی اور ان کی گاڑیوں کے اوپر،فری میسن لاجز اور عیسائی چرچوں کے اندر،ہندؤں کے مندر اور ان کے دیوتاؤں کی تصویروں میں وغیرہ وغیرہ۔


شیاطین کا آپس میں رابطہ بھی انہی علامات سے ہوتا ہے۔ آج بہت لوگ جانتے ہیں کہ '' سب کچھ دیکھنے والی آنکھ '' The All Seeing Eye   جو امریکی ڈالر میں بھی دکھائی دیتی ہے وہی آنکھ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اہرام اور ان کی تصاویر اور بڑے بڑے داخلی دروازوں پر بھی نظر آتی ہے۔ یہ داخلی دروازے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور دنیا بھر کے قدیمی اور جدید آرکیٹکچر میں دو بڑے بڑے منقش ستونوں کے ذریعہ ظاہر کیے جاتے ہیں۔یہ سب شیطانی وساطت کی نشانیاں ہیں اور شیطان کی پوجا کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ آج مسجد اقصیٰ کو گرا کر اس کی جگہ ایک یہودی مندر یا سیناگاگ کی تعمیر کا منصوبہ بھی اسی شیطانی پوجا کا ایک حصہ ہے۔ اسرائیل کا یہ منصوبہ اللہ کی عبادت کے لیے نہیں بنا یا جارہا ہے بلکہ ایک ایسا مندر ہوگا جہاں شیطان کی پوجا ہوگی۔اور شیطان کا سب سے شاہکار مہرہ '' مسیح الدجال '' یہاں سے ہی بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت کرے گا۔


اگر آپ اسرائیل کے جھنڈے کو دیکھیں تو اس میں اوپر نیچے کی دو نیلی لکیریں دریائے نیل اور دجلہ و فرات کا نشان ہیں جبکہ درمیان میں ایک چھہ کونوں والا ستارہ ہے۔ مشہور ہے کہ یہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ستارہ ہے جو غلط  ہے۔ اور پھر یہ کہ یہود کے پیغمبر تو سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت داؤد علیہ السلام۔اپنے پیغمبر کی کوئی نشانی انہوں نے کیوں نہیں لگائی۔ یہود دراصل حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو پیغمبر مانتے ہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک وہ جادوگر اور کاہن تھے۔ نعوذ با للہ من ذٰلک۔ یہ چھ کونوں والا ستارہ دراصل اپنی زمینی جہت سے نکل کر ماورائی جہتوں Cross Dimensional Sphere  میں داخلہ کا ایک استعارہ ہے اور یہ اعلان ہے اس بات کا کہ یہود تمام دنیاوی اور غیر مرئی طاقتوں کا استعمال کرکے دنیا اور اس سے آگے بڑھ کر پوری کائنات پر قبضہ کارادہ رکھتے اور اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں۔


انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دنیا بھر میں فساد برپا کیا ہوا ہے۔ عیسائی مذہب میںداخل ہوکر اس پاک و صاف دین مطہرہ کی ایسی شکل برباد کی کہ اللہ کی پناہ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنایا بلکہ اس کی خدائی میں شریک کردیا۔ پرانے مصری و یونانی دیومالائی دیوتاؤں سے ان کی مشابہت کی گئی ۔ مصر کے ایک آنکھ والے ہورس دیوتا سے ان کو تشبیہ دی گئی۔ اتوار یعنی سورج کے دن کو ان کے ماننے والوں کا مبارک دن قرار دیا۔ ٢٥ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن مقرر کیا جو کہ غلط ہے اور یہ دن یونانی دیوتاؤں سے کسی کی پیدائش کا دن ہے۔ اس دن کو کرسمس کے تہوار کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ جبکہ خود بہت سے عیسائی فرقے دسمبر کی بجائے جنوری یا جون میں آپ علیہ السلام کا دن مناتے ہیں۔اور یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے صدیوں بعد ٣٢٥ء میں ان کے بڑوں کی کاؤنسل(Council of Nicaea) میں طے کیا گیا۔آج آپ کسی بھی عیسائی گرجا میں چلے جائیں تو وہاں آپ کو سورج کی تصویر ملے گی۔ ایک سب دیکھنے والی آنکھ بھی کسی دیوار یا کسی منقش چیز میں پیوست ہوئی نظر آئے گی۔یا ایک اہرام بمع ایک آنکھ کے موجود ہوگا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے یہود نے اپنی تورات کو تالمود سے تبدیل کر لیا اسی طرح انجیل مقدس کو بائبل کی شکل دے دی گئی اور خرافات سے بھر دیا گیا۔اللہ پاک نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے تو اس میں تو وہ کوئی تصرف نہ کر سکے۔ تا آنکہ یہود کو دنیا کی سیادت سے محروم کرکے یہ قیادت مسلمانوں کے حوالے کر دی گئی۔


یہ تمام خفیہ سوسائیٹیاں شیطان کی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ ان ہی کے ذریعہ سے شیطان نے دنیا کے تمام ذخائر پر قبضہ کر رکھا ہوا ہے۔اطلاعات کی ترسیل اوران کی اشاعت کا نظام ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ تمام دنیا کا میڈیا ان کے قبضہ میں ہے اور جو وہ چاہتے ہیں وہ عوام کے لیے منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ جو وہ نہ چاہیں اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور یہ ساری اطلاعات خواہ زمین سے متعلق ہوں یا آسمانوں کے کونوں سے چھپ کر حاصل کی گئی ہوں سب ان کے قبضہ میں ہے۔ایلومیناٹی کا ادارہ ان اطلاعات کی رسائی کے دروازے کا چوکیدار ہے۔دنیا میں جتنے بھی انرجی اور قوت کے مراکز ہیں وہ سب ان کے ہاتھ میں ہیں۔اور ان ہی مراکز کے تحت وہ دنیا وی جہتوں سے نکل کر غیر مرئی اور کائناتی انرجی تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔اسی دنیاوی اور کائناتی انرجی کے مقاطع کو یا ایک دوسرے سے ملنے والی جگہوں کو '' وورٹیکس پوائنٹ ''Vortex Pointکہتے ہیں۔جس کی نشاندہی ایک کراسCross کے ذریعہ سے کی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب دو مختلف انرجی کی لہریں ایک دوسرے کو قطع کرتی ہیں تو انسان ان کے ذریعہ ایک نئی جہت میں داخل ہو جاتا ہے اور اس نئی جہت کو ڈبل کراس Double Cross   یا آٹھ کونوں والے ستارے سے ظاہر کیا جاتا ہے۔


ہمیں قران مجید سے سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پتہ چلتا ہے۔علماء نے یہ بتا یا ہے کہ کائنات سات مختلف جہتوں  یعنی Dimensions پر مشتمل ہے۔ ہم انسان اپنی جہت میں رہتے ہیں اور دیگر مخلوقات مثلاً فرشتے اور جن ایک الگ جہت کے باشندے ہیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کے لیے گفتگو الفاظ کے ذریعہ سے کر تے ہیں۔ لیکن ایلومیناٹی اور دیگر شیطانی گروہ اپنی جہت سے اگلی جہت والوں سے رابطے کے لیے اشکال اور اعداد کا استعمال کرتے ہیں۔اور اس علم کو مقدس علم جفر اور نمر کہتے ہیں۔ Neumerology and Sphere Geometry)) اس علم میں ہر عدد کا ایک مطلب ہو تا ہے۔ جیسے ١٠ کا ہندسہ۔ اس کا معنیٰ ہے الفا اور اومیگاAlpha and Omega۔ جس کا مطلب ہے '' خدا '' ۔ اسی طرح ١١ کے ہندسہ کا مطلب ہے ایک ایسی ہستی جو خدا سے بھی بڑی ہو (نعوذ باللہ)۔ اور ٩ جمع  ١ جمع ١ کا مطلب ہوگا کہ اللہ کو پھلانگ کرکے ایک ایسی ہستی کی طرف بڑھا جائے جو اللہ سے زیادہ طاقتور ہو اور اسی سے مدد مانگی جائے جو اللہ سے بھی بڑا ہو۔ ( نعوذ باللہ من شرورہم)۔ اسی لیے تو آپ امریکہ میں جب کسی مشکل میں گرفتار ہو جاتے ہیں تو مدد کے لیے اللہ کو پکارنے کی بجائے ١١/ ٩ کو فون کرتے ہیں۔اب یہ دیکھیں کہ ١١/ ٩ کا مطلب یہ ہوا کہ 


١۔ اللہ کو چیلنج کیا جائے اور شیطان کو خوش کیا جائے


٢۔ کعبہ کی تباہی کا اعادہ کیا جائے


٣۔ ایک نئے ورلڈ آرڈر کے آغاز کا اظہار کیا جائے


٤۔ دنیا میں ایک ایسے طاقت کے مرکز کو پیدا کیا جائے جو دوسری جہت یا Dimensions تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے۔


یہاں ایک منٹ کے لیے توقف کرلیں اور یہ سوچیں کہ ہم نے کعبہ کی تباہی کا اوپر ذکر کیوں کیا۔ہم جانتے ہیں کہ ١١ ستمبر کو ٹوین ٹاور(Twin Towers) کو تباہ کیا گیا۔ اگر آپ کے علم میں ہو کہ ٹوین ٹاور دو اونچی عمارتیں تھیں اور ان کے درمیان کھلی جگہ میں ایک کُرہ یاSphere بنا ہواتھا اور یہ کرہ ٢٤ گھنٹے میں ایک مرتبہ زمین کی طرح اپنے گرد گھومتا تھا۔اس علاقہ کو لوگ لنچ کے وقفہ میں بیٹھ کر کھانے پینے اور سستانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔یہ دونوں ٹاور اس گیٹ کو ظاہر کرتے تھے جس کا پہلے ذکرکیا گیا تھا یعنی  Cross Dimensional Entry Points ۔ اور اس کرہ کو ملا کر وہ ١ ٠ ١ کا ہندسہ بنا تے تھے۔ جو اللہ کی ذات سے بھی بڑی ایک ذات کی طرف اشارہ ہے۔مگر صفر کا یہ ہندسہ کعبہ سے کیسے مشابہت رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر ایک جاندار کے اندر کچھ انرجی موجود ہوتی ہے جو ہم خارج بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح زمین اور آسمانوں میں بھی انرجی ہے۔ زمین کی انرجی میں مقناطیسی انرجی ، کشش ثقل کی انرجی اور اسی طرح کی دیگر طاقتیں موجود ہیں۔ زمین کے مختلف علاقوں میں ان انرجی کی طاقت اور اثر مختلف ہے۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ زمین پر سب سے زیادہ انرجی رکھنی والی جگہ وہ ہے جہاں اللہ کا گھر خانہ کعبہ واقع ہے۔اور اس پر مزید حیرانگی اس بات کی ہے کہ زمین اور کائنات میں موجود مختلف انرجی کے پوائنٹ یعنیGeodatic, Magnetic , Cosmic  انرجیوں کا ملاپ عین خانہ کعبہ کے اوپر ہے۔ یہاں یہ طاقتیں ایک دوسرے کو قطع کرتی ہیں۔گویا کہ یہ اللہ کا قائم کردہ کائناتی مرکز ہے۔Twin Tower  حضرت سلیمان علیہ السلام کے داخلی دروازے کے ستون تھے۔ جب ١١ ستمبر کا حادثہ ہوا تو کعبہ کی تباہی کا مظاہرہ بھی ہوا اس کے ساتھ ہی شیطان کے پوجا کی ایک اور رسم یعنی انسانی جانوں کی قربانی پیش کرنے کا مظاہرہ بھی ہوا۔دو ہزار تین سو انسان اس حادثہ میں قربان ہوئے۔ Bohemian Groove  والے بھی ہر سال خون بہا کر قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ ان ہی شیطان کے پجاریوں کی طرف سے  انسانی جانوں کی اصلی قربانی تھی جو ان کے معبود شیطان کو پیش کی گئی۔ہم صرف وہ جانتے ہیں جو ہمیں بتایا جا تا ہے۔ ہمیں اس حادثہ کی شکل کچھ اور کر کے دکھائی گئی اور نتیجتاً آفت بیچارے افغانیوں پر آئی۔


ان شیطانی گروہوں کا ایک اور عجیب فلسفہ یہ بھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کرنے کے بعد ایک قہار اور نا انصاف خدا (نعوذ باللہ من ذٰلک) نے انہیں باغ عدن میں قید کر دیاتاکہ کہیں آدم خود اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاکر خود خدا جیسی طاقت نہ حاصل کر لے۔انسان نے ہمت کی اور اپنی طاقت کو استعمال کرکے اللہ سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہوگیا اور اس نے اللہ کے احکامات کو پامال کیااور یوں آدم نے انسانیت کو اللہ کی قید سے آزاد کرا دیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان یقیناً اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اللہ جیسی طاقت اور قدرت حاصل کر سکتا ہے اور اسی چیز کا اعادہ کرنے کے لیے شیطان کے یہ پجاری اکثر و بیشتر ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں جس سے وہ اللہ کو چیلنج کرتے ہیں۔ ٹائی ٹینک Titanic  جہاز بنا کر اس کے لیے یہ کہا کہ اگر اللہ کی مشیت بھی چاہے گی تو یہ جہاز نہیں ڈوب سکتا۔ کیا چیلنج تھا اللہ پاک کی شان میں، کیا گستاخی تھی جو انہوں نے کی اور پھر ہم جانتے ہیں کہ اللہ پاک طاقت اور قدرت رکھنے والے وحدہ لاشریک نے اس چیلنج کا کیا جواب دیا کہ وہ اپنے پہلے سفرمیںہی سمندروں کی تہوں میں جا بیٹھا۔ایک خلائی جہاز چیلنجر Challaenger بنا کر خلا میں اسی قسم کی واہیات باتوں کے ساتھ روانہ کیا تو اللہ قہار و جبار نے اس کے اتنے ٹکرے کر دئے کہ کون مالک ہے عیاں ہوگیا۔مگرباز تو یہ ابھی بھی نہیں آئے ہیں۔ آج بھی اللہ کی قدرت میں دخل اندازی اور اللہ کی قدرت اور تخلیق میں تبدیلی کی کوششیں جاری ہیں۔ قران مجید میں ان خبیث انسانوں کی طرف سے اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنے اور اس کی شکل بگاڑنے کی کوشش کرنے کا تذکرہ موجود ہے۔ اور شیطانی ایما پر یہ کام آج کا انسان جین میں تبدیلیGenetic Modification کے نام پر کر رہا ہے۔اپنی خواہش کے مطابق رنگ و روپ ، صورت و شکل ، عقل اور طاقت والے انسان کی تخلیق کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 


جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ ابلیس انسان سے زیادہ عمر والا اور تجربہ کار ہے۔ اس نے انسان کو تخلیق ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور ہمیں احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب انسان کا پُتلا بے جان پڑا ہوا تھا تو یہ خبیث اس وقت بھی اس پُتلے کی تحقیر کر تا تھا۔ جسم کے نچلے حصے سے داخل ہو کر منہ سے نکل آتا تو کبھی منہ میں داخل ہوکر نچلے حصے سے باہر آتا۔ٹھٹا کرتا وغیرہ وغیرہ۔اس کو ہماری کمزوریوں کا بھی علم ہے اور ہماری طاقت اور مضبوطی کا بھی۔اسے علم ہے کہ ہماری کن چیزوں کو چھیڑ کر وہ ہمیںغلط کاموں پر اکسا سکتا ہے اور ہماری کون سی چیزیں ایسی ہیں جن سے ہمیں غافل کردے تو ہم اپنی طاقتوں کا استعمال نہیں کر سکتے۔ اللہ جل شانہ نے انسانی جسم کو اچھائی اور برائی دونوں کے حصول کے قابل بنا یا ہے۔شیطان کو علم ہے کہ ہمارے سفلی جذبات کہاں بھڑکتے ہیں اور روحانی بالیدگی کہاں سے حاصل ہوتی ہے۔ہماری انہی کمزوریوں کو چھیڑتا ہے اور ہمیں اپنا گرویدہ بنائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم لذت اور آرام کے حصول کی خاطر اس کے غلام بنے رہیںاور وہ ہمیں بھٹکاتا ہوا وہاں تک لے جائے جہاں جا کر وہ اللہ کی بارگاہ میںیہ کہہ سکے کہ اے مالک میں نے کہا تھا کہ یہ اس قابل نہیں ہے کہ تیری نیابت کرسکے۔


آئیے اب ہم اپنے جسم پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ شیطان ہم پر قابو پانے کے لیے ہم پر کہاں کہاں حملے کرتا ہے۔


( الف )جسم کے سب سے نچلے دھڑ پر حملہ یعنی جنسی حملہ۔ جنسی جذبہ اللہ نے انسان کی افزائش نسل کے لیے رکھا ہے اور اس میں مزہ انسان کو اس کی طرف راغب کرنے کے لیے عطا کیا ہے۔ اس میں لذت بھی ہے اور تخلیق کی کارروائی میں حصہ لینے کا خوش آئند احساس بھی۔ یہ ایک بڑا ہی شدید اور انتہائی طاقت ور جذبہ ہے۔ اگر یہ جذبہ اللہ کے احکامات کے مطابق نکاح کے قیود میں رہے تو کنٹرول میں بھی رہتا ہے اور اللہ کی طرف سے انعام اور روح کی بالیدگی کابھی ذ ریعہ بن جاتا ہے۔ اور پھر یہ کہ انسانی معاشرے کے نقوش بھی اسی سے خوبصورت اور خوشنما ہوتے ہیں۔ مگر اسی جذبے کے غلط استعمال سے انسان راندہ درگاہ ہو جاتا ہے اور ابلیس کو اس کی خواہش کے مطابق اس کا ہدف مل جاتا ہے۔ اسی کو غلط استعمال میں لانے کے لیے اس مردود نے ہیجان انگیزاور عریاں اشتہارات ، فلمیں ، ناچ گانے، ڈرامے رنگین ٹالک شوز وغیرہ ایجاد کروادئیے ہیں تاکہ انسان کو پٹری سے اتارے اورنکاح کا مقدس بندھن آزاد جنس پروری میں بدلے اور یہ اپنا مقصد حاصل کرے۔


( ب )جسم کے درمیانی حصے یعنی پیٹ پر حملہ۔اللہ پاک کا حکم ہے کہ حلال اور پاک چیزیں کھاؤاور حرام سے اجتناب کرو۔ اللہ نے ہر دور میں حلال اور حرام میںامتیاز قائم رکھا ہے اور واضح ہدایات دی ہیں۔ حلال کھانا حلال ذرائع سے کمایا ہوا حلال مال عطا کر تا ہے۔ یہ جسمانی ترقی ، روحانی بالیدگی اور معاشرتی حسن پیدا کرتا ہے۔ ابلیس نے پہلے تو حرام مال کمانے پر لگا یا اور پھر پیزا ، میکڈونلڈ ، ہارڈیز ، کے ایف سی اور دیگر نشہ آور اور نقصان دہ چیزوں کی طرف راغب کردیا۔ اور ان کے حصول کے لیے حیلوں بہانوں سے لالچ دلائی کہ وہ رشوت، حرام خوری وغیرہ سے ان کو حاصل کرے۔


( ج )جسم کے اہم حصے دل پر حملہ۔ ہمارا دل حق کی آماجگاہ ہے۔ حق جو عدل ہے ، محبت ہے ، عقل ہے ، عزت ہے اور انسان کی بلندگی اور شرف کی علامت ہے۔آج کے دور میں ہم ان تمام چیزوں سے مکمل طور پر عاری ہوگئے ہیں۔ہم ترقی کی دوڑ میں ایسے بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں کہ دوسروں کا دل توڑنا ، دوسروں کی عزتوں کو پامال کرنا ، کوئی مشکل نہیں۔ صرف اپنا فائدہ سب سے اہم ہے۔ اس لیے کہ ابلیس کے نظام میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ آپ بھلا توجگ بھلا۔ محبت ، رواداری ، نرمی ، اخلاص ، اکرام ، ذاتی اغراض سے بالا ہوکر دوسرے کے لیے کچھ کر دینا اب اس معاشرے میں مشکل ہوتا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری آنکھیں حق کو دیکھنے سے عاری ہوتی جارہیں۔ہم اللہ کے بتائے ہوئے اصول معاشرت سے دور ہوتے جارہے ہیں پتھر دل ہوتے جارہے ہیں۔


( د )جسم کے بالائی حصہ حلق پر حملہ۔ ہمارا حلق جو ہمیں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ابلیس اس کو خاموش کرانا چاہتا ہے۔ ہزاروں برسوں سے ہم اپنی محبت ، شفقت ، نفرت ، غصہ سب کا اظہار اپنی زبان اور حلق سے کرتے چلے آئے ہیںمگر آج کے ابلیسی نظام کے تحت حلق کا استعمال کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ آج ہم اپنے جذبات دوسروں تک پہنچانے کے لیے انٹر نیٹ کا سہارا لیتے ہیں ، ایس ایم ایس کرتے ہیں ، کسی سے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے اس کے نام ایک گانا نشر کرا دیتے ہیں یا پھر پھول اور کارڈ بھیج دیتے ہیں۔یوں ہم آہستہ آہستہ اپنے ہی خول میں بند ہوتے جارہے ہیں۔ دوسروں سے سروکار رکھنے کا سلسلہ ختم ہورہا ہے۔ خاموش رہو خوش رہو۔ اپنے خول میں بند ہوجانے اور اپنے ارد گرد کے حالات سے غیر دلچسپی شیطان کے اپنے حق میں بہت بہتر ہے۔ انسانیت کمزور پڑتی ہے اور متحدہ محاذ نہیں ملتا۔ 


( ذ ) تخلیق کے شاہکار دماغ پر حملہ۔ انسانی دماغ جو سوچ ، فکر ، عمل اور اختیارات کا منبع ہے اس پر حملہ کرکے ابلیس نے اس کو پراگندہ کر دیا ہے۔ وہ دماغ جو اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے خود اپنے اور اپنے خالق کے درمیان رابطے اور سمجھنے کا ایک آلہ ہے اس کو ایسا بے کار اور پراگندہ کر دیا ہے کہ اب یہ دماغ صرف وہ سنتا ہے جو میڈیا سناتا ہے ، وہ دیکھتا ہے جو میڈیا دکھا تا ہے، وہ جانتا ہے جو میڈیا سمجھاتا ہے۔اس کی اپنی ذاتی سوچ اور فکر کی صلاحیتیں معدوم ہو گئی ہیں نتیجہ کے طور پر قوت فیصلہ اور قوت ارادی بھی کمزور پڑ گئی ہے۔اللہ سے رشتہ کاٹ کر یہ سمجھایا جارہا ہے کہ دنیا میں نفرت ، قتل و غارت گری، بدامنی اور پراگندگی صرف مذہب کی وجہ سے ہے۔ مذہب نفرت کرنا سکھاتا ہے اور مخالفین کو مٹا دینے کا سبق دیتا ہے۔اس لیے دنیا کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل کردیا جائے جس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہواور اسی کی بنیاد پر معاشرہ قائم کیا جائے۔ پھر ہر طرف امن و سکون ہوگا، چین و اطمینان ہوگااور ہر انسان خوب ترقی کرے گا۔ہر ایک کو شخصی آزادی ہو جس کا جو دل چاہے کرے۔ یہی سوچ اور یہی تربیت آج کل دی جارہی ہے اور دماغ کو اس پر راضی کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے توجہ مکمل طور سے ہٹا لی گئی ہے کہ مذہب انسان کو قوانین و ضوابط کا پابند کرتا ہے اور ایک ایسی زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے جہاں برابری ہو اور بہتر مستقبل اللہ کی حاکمیت اور اس کے بتائے ہوئے راستوں کے ذریعہ حاصل ہو۔آج کے اس دجالی سوچ کے زیر اثر تاریخ انسانی کے بہترین دور یعنی دور خلافت راشدہ کی کوئی بات نہیں کرتاجہاں امن بھی تھا بھائی چارہ بھی تھا، سکون بھی تھا اور انصاف بھی تھا۔ جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت بھی ہوتی تھی۔ ہر کوئی برابر تھا چوری رہزنی بھی نہیں تھی، تجارت آزاد اور شفاف تھی۔ یہ ہمیں آج سکھا رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں کہ تاریخ انسانی کا زریں دور رومیوں یونانیوں کی حکومتوں میں تھا۔ وہ ہمیں روسی سوشلزم کے طریقہ کار کو سمجھا رہے ہیں برطانیہ کی جمہوریت کا سبق دے رہے ہیں اورامریکی صدارتی نظام حکومت پر انگشت بدنداں کررہے ہیں۔ مگر جو ہر لحاظ سے بہترین دور انسانی حکومت تھا اس کا کوئی تذکرہ کیوں نہیں ہوتا۔اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ خلافت راشدہ کا نظام جس دم قائم ہوگیا شیطان کا پھیلا یا ہوا سودی نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گا۔


( ر )روح پر حملہ۔ ہماری روح کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر ربی ہے خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ انسانی تخلیق کی انتہا اسی روح کا افضل ترین درجہ پر پہنچ جانا ہے۔ روح کا یہی عروج انسان کو اللہ کا نائب بن جانے کے درجہ کا حق دار بنا دیتا ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ اور اس کے برحق رسولوں کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیمات پر عمل در آمد ہو۔ اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں سے ہدایت اور روشنی حاصل کرکے اپنی زندگیوںکو ان ہی اصولوں پر استوار کر لیا جائے اور یہی کام ابلیس نے ہونے نہ دیا۔ اس نے سب سے پہلے اللہ کی کتابوں کو غائب کرا دیا اور اس کی جگہ لوگوں سے دوسری کتابیں لکھوادیں تاکہ اللہ کے احکامات سے انحراف ہو جائے اور انسانیت اپنے راستے سے بھٹک جائے۔ نہ ہدایت ہو ، نہ روشنی ہو ، نہ راستہ نظر آئے نہ کوئی سیدھے راستے پر چلے۔ یہی اس کا مطمح نظر تھا۔ انسانی روح کو نیچے گرانے کا ایک اور ذریعہ ذکر سے دوری ہے۔آج ہماری کتاب ہدایت اپنی اصل حالت میں اللہ کے حکم سے موجود ہے۔ الحمد للہ۔ ابلیس اس کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے دوسری چال چلی اور ہمیں ایسا بھٹکا یا کہ کتاب کی موجودگی کے  باوجود ہم نہ اس کو کھول کر پڑھیں نہ سمجھیں نہ ہدایت پائیں۔ نہ فکر کریں نہ ذکر کریں۔ ہم لوگوں نے فکر اور ذکر کو یکسر بھلا دیا ہے۔ اس کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کو اللہ کے نزدیک کردیتا ہے، سوچ کے اوپر قابو پانا سکھاتا ہے ، اُن معاملات کی سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے جو سرسری طور پر سمجھ میں نہ آتے ہوں، انسانی ذات میں نکھار پیدا کرتا ہے اور اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہر بڑے آدمی نے ذکر و فکر وغیرہ کے عمل کے ذریعہ بلندی حاصل کی۔ مگر ہم نے ان اعمال کو فضول سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کو زبان کی تسبیح بنالینے اور سوچ کا محور کرلینے سے روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔

اختتامیہ۔


 ہم نے اوپر جن خفیہ تنظیموں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے لائحہ عمل کو بیان کیا ہے وہ یقیناً مکمل نہیں ہے۔ نہ تو تمام تنظیموں کا احاطہ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ان کی خفیہ چالوں کو کما حقہ بیان کیا جا سکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جو کچھ قرآن پاک کے حوالے سے بتایا گیا ہے نہ وہ مکمل ہے۔ قرآن پاک میں اس سے زیادہ بھی چیزیں موجود ہیں جو مجھ جیسے ناچیز کی سمجھ اور پہنچ سے دور ہیں۔ ہمارا اس مضمون کو لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کو یہ بآور کرایا جائے کہ ہمارے دشمن کا ٹارگٹ اور اس کا مقصد اس کے ذہن میں بالکل واضح ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اس وقت سے کوشاں ہے  جب حضرت آدم و حوا علیہم السلام ابھی جنت میں ہی تھے بلکہ حضرت حوا کی بھی تخلیق ابھی نہیں ہوئی تھی۔آج وہ اپنی چالوں میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اور اس کے گرگے اپنا آخری ترپ کا پتہ کھیلنے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ابلیس کے شاہکار ترین تخلیق یعنی مسیح الدجال کی آمد کا راستہ تقریباً تیار ہے۔انسانی سوچ کو اس نے اس ڈگر پر ڈال دیا ہے جہاں ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم لوگ از خود کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارا عمل مفلوج ہو گیا ہے۔ اس نے ہمیں اس بات پر ذہنی طور پر راضی کر لیا ہے کہ موجودہ ابلیسی نظام معیشت ، معاشرت اور حکومت سب سے بہتر ہے اور اسے ہی رائج ہونا چاہئے۔ ہم نے اس بات کو یکسر اپنے ذہن سے نکال دیاہے کہ ہمیں بھی فکر اور سوچ کی طاقتیں حاصل ہیں۔ان کو استعمال کرکے ہم اپنے لیے راستہ نکالنے کی بجائے اس کے بتائے ہوئے راستے پر بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں۔ آنکھیں بند ہیں ، احساس منجمد ہیں ، فکر محدود ہے اور انجام سے ہم بے خوف ہیں۔


ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے۔ آج بھی ہم جاگ جائیں اور وہ مرد مومن بن جائیں جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھا تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اپنی خودی اور خودداری کو واپس لے آئیں۔ اللہ سے مدد مانگیں۔ اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں۔ اگر ہماری روح دجالی فریب سے آزاد ہوجائے تو ہم بھی قرآن اور سنت رسول سے اسی طرح استفادہ کر سکتے ہیں جیسے صحابہ کرام نے کیا تھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری یہ زندگی بالکل عارضی ہے۔ یہاں حق کی خاطر دکھ اور تکلیف جھیلنا اور اللہ کی راہ میں اس کے کلمہ حق کی سر بلندگی میں پیش آنے والی تکلیفیں ہی آخرت کی زندگی میں آسائشیں اور آسودگی ، بلند درجات اور جنت کی راحت اور آرام کی ضامن ہیں۔ یاد رہے جب یہاں کی عارضی زندگی ختم ہوگی وہاں کی ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کا آغاز ہو جائے گا۔ 


یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے ماخوذ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے