بدھ، 30 مارچ، 2016

دیارِ غیر میں مقیم ایک پاکستانی لڑکی کی فکری الجھنیں مغربی معاشرے میں مسلم والدین کا روّیہ

مصادر شرعیہ                                                                                                                                             

دیارِ غیر میں مقیم ایک پاکستانی لڑکی کی فکری الجھنیں

1۔ بے حجابی اور بدکاری

محمد عالمگیر ( آسٹریلیا )

ترجمہ

ابو عمار سلیم

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی معاشرہ کو شیاطین جن و انس نے مل کر ایک ایسے گھناؤنے معاشرہ میں تبدیل کر دیا ہے جس کا طرہ امتیاز ہی فحاشی اور بد کرداری ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُس معاشرہ میں گونا گوں خوبیاں بھی ہیں جنہیں ہم مسلمان بڑی حسرت سے تکتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم یہ سب اچھی چیزیں خود کیوں نہیں اپنا لیتے ۔ مگر ان تمام اچھائیوں کے باوجود ان کی بے حجابی ، عریانیت اور فحاشی کے عوامل ان کے تمام خصوصیات کو گہنائے دے رہی ہیں ۔ وہ لوگ جو ان سے بے تحاشا متاثر ہیں اپنے طور طریقوں میں ان کی اسی غلط روش کو بلا روک ٹوک اختیار کرنے کے لیے تیز ترین مقابلے میں مبتلا ہیں اور خود بھی فحاشی اور بے حجابی کی اسی منزل تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں شیطان انہیں لے جانا چاہتا ہے ۔ ہمارے ملک کے بہت سارے لوگ اپنی روزی اور معاش کی تگ و دو کی خاطر ان مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں ۔ ایسے لوگوں کی اولادیں بھی ان کے ساتھ وہاں مقیم ہیں ۔ ان بچے اور بچیوں پر اس معاشرہ کے اثرات بھی اثر پذیر ہو رہے ہیں ۔ کچھ صالح اذہان اس روش کو قبول نہیں کر رہے اور ان کے دلوں اور ذہنوں میں بے تحاشا خلجان بھی ہے اور وہ سیدھا اور صاف راستہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ ان بچوں اور نوجوانوں کے پاس ایسے ذرائع بہت محدود ہیں جو ان کی رہنمائی کرسکیں ۔ ہمارے مجلے سے وابستہ ایک معروف اہل قلم محترم محمد عالمگیر جو خود عالم بھی ہیں ، بڑے اساتذہ کے تربیت یافتہ بھی ہیں اور ایک دور رس ذہن بھی رکھتے ہیں فی الوقت آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور نوجوانوں کی ذہنی الجھنوں کو بذریعہ خط و کتابت اور ای میل دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ برادر مکرم عالمگیر صاحب نے از راہ شفقت ہمارے مجلّے کے لیے آسٹریلیا میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان لڑکی سے اپنے ای میل کے ذریعہ کیے گئے سوال جواب ارسال کیے ہیں جس کا ترجمہ قارئین الواقعہ کے ذہنی ذوق جمال کے لیے اس خیال کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ اس کے ذریعہ شاید پاکستان میں مقیم نوجوانوں کی بھی راہ نمائی ہو جائے ۔سوالات تیکھے بھی ہیں اوران کے جوابات بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے بے حجابانہ لکھے گئے ہیں جو شائد کسی کے لیے قابل قبول نہ ہو مگر ہمارا خیال ہے کہ جب شرعی معاملات پر گفتگو ہو تو بات بے لاگ ہونی چاہئے تاکہ شک کے دریچے بند ہو جائیں ۔ اللہ عالمگیر صاحب کی ان کاوشوں کی انہیں بہترین جزا عطا کریں ۔ آمین ثم آمین ( ابو عمار سلیم )

بدھ، 30 جولائی، 2014

امن عالم اور قرآن کریم

ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ جنوری، فروری 2014، شمارہ 22 اور 23


قرآنیات

امن عالم اور قرآن کریم

حافظ عبد الرب سرہندی



شادی کے بعد خواتین کے نام کی تبدیلی

ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ جنوری، فروری 2014، شمارہ 22 اور 23
سماجیات شادی کے بعد خواتین کے نام کی تبدیلی

سماجیات

شادی کے بعد خواتین کے نام کی تبدیلی

ابو عمار سلیم

ہمارے موجودہ معاشرہ میں اور بالخصوص پاکستان کے شہری علاقوں کے لوگوں میں جہاں اور بہت ساری  مغربی تہذیب کے رسم و رواج نے راہ  پالی ہے وہاں ایک معاملہ شادی کے بعد خواتین کے نام میں شوہر کے نام کا اضافہ بھی ہے۔ عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی کے فوراً بعد ہی لڑکیوں کی اپنی شناخت مرد کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے ۔  بظاہر یہ ایک سیدھا سادہ اور بے ضرر سا معاملہ نظر آتا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ اتنا ہی معمولی سا واقعہ ہے جس کے بارے میں سوچنا کچھ ایسا اہم  کام نہیں ہے ۔ ہم اس مسئلہ کو ذرا سا زیادہ تفصیل میں جا کر دیکھیں گے اور جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی ایسا کرنا درست ہے اور یہ بھی کہ آیا  اس عمل کی کوئی تائید اور گنجائش ہمارے مذہبی احکامات سے ملتی ہے ؟ 
دنیا بھر میں عام طور سے نام کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ پہلا حصہ ذاتی نام کا ہوتا ہے جب کہ دوسرا نسب کو یا ولدیت کو ظاہر کرتا ہے۔ کبھی کبھی ولدیت اور نسب دونوں ہی شامل کر لیے جاتے ہیں ۔ جہاں تک نام رکھنے کا تعلق ہے دنیا بھر میں والدین اپنے نومولود لڑکے اور لڑکیوں کے نام بڑے پیار سے اور بڑی چاہ سے رکھتے ہیں ۔ کہیں ایسا ہوتا ہے کہ نو مولود کا نام اپنے کسی بزرگ کے نام پر رکھ لیتے ہیں اور ان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر لیتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں اپنے باپ کے نام پر یا اپنے ہی نام پر نو مولود کا نام رکھ لینا بہت ہی عام ہے پھر اس کی تخصیص اور پہچان کے لیے ان ناموں کے آگے سینئر اور جونیر کا اضافہ کرکے پہچان درست کر لیتے ہیں ۔  مذہبی  رجحانات سے مغلوب ہونے کی وجہ  سے  مغربی معاشرے میں بھی اور ہمارے مسلم معاشرے میں بھی مذہبی شخصیات ، بزرگوں اور پیغمبروں کے نام پر نام رکھنا بھی بہت عام ہے ۔ اپنے پاکستان میں تو جدید فیشن یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے بچے کا نام ایسا ہونا چاہئے جو بالکل منفرد اور اچھوتا ہو ، ایسا یکتا ہوجس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہ ہو ۔ اب خواہ اس نام کا کوئی اچھا مطلب نکلتا ہو یا نہ ہو ۔  بیشتر اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو نام اچھا لگا وہ رکھ لیا گیا مگر اس کا مطلب نہ رکھنے والے کو آتا ہے اور نہ ہی اس کو جس کا یہ  نام ہوتا ہے ۔ مغرب میں تو اوٹ پٹانگ ناموں مثلا بلیک ، براؤن ، ڈاگ ، فوکس وغیرہ وغیرہ تو بہت دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں مگر ہم  مشرقی مسلمانوں میں ابھی ایسے بے تکے ناموں کا آغاز نہیں ہوا ہے ۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کے یہاں اپنے آقا و مولا سیدنا و سید المرسلین حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا نام نامی  بچوں کے  نام کے ایک حصے کے طور پر ضرور لگایا جاتا ہے ۔  یہ محبت بھی ہے اور عقیدت بھی ۔ عبد القادر ، عبد الباری ، عبد اللہ وغیرہ نام خالصتاً اللہ سبحانہ و تعالی سے اپنا تعلق ظاہر کرنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بھی رکھا جاتا ہے اور کم و بیش اسی طرح کا معاملہ لڑکیوں کے نام کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ نام رکھنے کے سلسلہ میں ہمارے پاس بڑی اچھی ہدایات خالق کائنات سے بھی ملتی ہیں اور ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے ارشادات سے بھی ۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرمایا کہ تمام اچھے  نام اللہ کے ہیں اور اس کے بعد اس نے اپنے بہت سارے ذاتی اور صفاتی ناموں کی تفصیل بھی دے دی ۔ ان میں سے جس نام کے اوپر بھی غور کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ بڑے حکمت کے موتی ہی نہیں ملتے اس بات کا واضح اشارہ بھی ملتا ہے کہ پیدا کرنے والے نے اپنے نام اچھے رکھے ہیں تو ہمیں بھی ایسے ناموں کا انتخاب کرنا چاہئے جو اچھی صفات  اور اچھے معنی والے ہوں ۔  ایسے نام جو اللہ کے نام کے ساتھ جڑتے ہوں اور اس کی بندگی اور غلامی کے اظہار سے متصف ہوں مثلاً عبد القیوم اور عبد القدوس وغیرہ تو انتہائی با برکت نام ہیں مگر لوگ بسا اوقات غلطی کرتے ہیں اور غلامی کا بندھن کسی اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ لگا لیتے ہیں جو کہ نہ صرف غلط ہے بلکہ بڑی  بھول ہے ۔ حضور نبی اکرم ہادی بر حق صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی کہ نام اچھے رکھو ۔ ایسے نام رکھو جس سے اچھے مطلب نکلتے ہوں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ایسی ہی بیش بہا مثالیں نکالی جا سکتی ہیں جہاں آپ نے اپنے صحابہ کے ناموں کو  جو جاہلیت کے دور میں رکھے گئے تھے تبدیل کر کے خوبصورت نام رکھ کر یہ ریت ڈالی کہ جب بھی احساس ہو جائے کہ نام ٹھیک نہیں ہے اسے تبدیل کر کے ایک اچھا نام رکھ لینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔
اب تک ہم نے جو گفتگو کی ، وہ تھی ذاتی نام سے متعلق مگر ہمارا اصل موضوع ذاتی نام نہیں بلکہ ذاتی نام کے ساتھ لگا ہوا وہ نام ہے جو پہچان اور تعارف کے لیے اختیار کیا جاتا ہے ۔ انسان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان نے ہمیشہ اپنے آپ کو اپنے نام کے علاوہ اپنے نسب ، قبیلہ اور ذات سے متعارف کرایا ہے ۔ ذات پات کی تقسیم دنیا کے دیگر علاقوں کے لوگوں نے تو رفتہ رفتہ چھوڑ دی مگر ہمارے برصغیر میں آج بھی لوگ اپنے نام کے ساتھ ایسے لاحقے لگاتے ہیں جو ان کی  ذ ات سے متصف ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے  کلام میں ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہیں قبیلوں میں پیدا کیا ہے تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ مگر تم میں سے افضل وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہو ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس بات کا مکمل ابطال کر دیا کہ ہماری ذات پات اور ہمارا قبیلہ کسی طرح بھی دوسروں پر فوقیت کا حامل ہے ۔ اب اس کے بعد آپ سید صاحب کے ہاتھ چومتے رہیں یا چودھری صاحب کی چمپی کریں یا ملک صاحب کی کاسہ گری میں مصروف ہو جائیں ، آپ کی اپنی مرضی ۔ اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے خاندان اور قبیلہ کو نہ چھوڑیں ۔ اپنی شناخت اسی کے ساتھ منسلک رکھیں اور اس میں کوئی برائی نہ سمجھیں اور اس  پہچان سے پیچھا نہ چھڑائیں ۔ ایسے کام کرنے سے بچیں جو خاندان اور قبیلے کی بد نامی کا باعث ہو جائے  بلکہ ایسے اچھے کام کریں جو آپ کے خاندان اور آپ کے قبیلے کے لیے باعث افتخار ہو اور اس کی عزت میں چار چاند لگائے ۔  ہم آج اسی قبیلے اور خاندانی نام کے متعلق بات کر رہے ہیں اور وہ بھی خاص طور سے عورتوں کے حوالے سے۔
مغرب میں بھی اور ہمارے معاشرے میں بھی مردوں اور خواتین دونوں کے نام کے ساتھ نسب کی  خاندانی  پہچان لگی  ہوئی ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے لڑکیاں عائشہ ملک بھی ہوتی ہیں اور عائشہ قریشی بھی ۔ عائشہ خان بھی ہوتی ہیں اور عائشہ بگٹی اور پلیجو بھی ۔ مگر نام کے ساتھ کے یہ  لاحقے ان خواتیں کی شادیوں کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں ۔  مثلاً عائشہ ملک ، عائشہ خان ہو جاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو  عائشہ تو وہی عائشہ ہے جو عبد اللہ ملک صاحب کی صاحبزادی ہیں اور رہیں گی خواہ ان کی شادی کسی گھرانے میں ہی کیوں نہ ہو جائے ۔  اگر کہیں خدا نخواستہ عائشہ کے سسرال والے کسی وجہ سے عائشہ کے ساتھ گزارہ نہ کر سکیں تو ان کے والد اُن کو بے یار و مددگار تو نہیں چھوڑیں گے بلکہ واپس اپنی ذمہ داری اور اپنے سایہ میں لے لیں گے ۔ ہم لوگوں نے مغرب کی نقالی میں آ کر شادی کے فوراً بعد دونوں نو بیاہتا جوڑے  ،  یعنی بہو اور بیٹے کو شناختی کارڈ کے دفتر بھیج دیتے ہیں جہاں ان دونوں کی شادی شدہ حیثیت کا اندراج ہوتا ہے وہیں لڑکی کے خاندانی نام کی جگہ اس کے میاں کے نام کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے ( افسوس کہ میں نے بھی یہی کیا ۔ میرا علم جب بھی ناقص تھا اور آج بھی ناقص ہے ۔ اللہ مجھے معاف فرمائیں )۔  اے مسلمانو! ذرا سوچو کہ ہمارے اللہ نے قران پاک میں ہمیں یہ حکم دیا کہ تمہارے لیے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا اسوہ بہترین نمونہ عمل ہے ۔ سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کتنے نکاح کیے اور ان میں سے کتنی ازواج مطہرات کے نام تبدیل ہوئے ؟ ام المومنین  حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، خدیجہ بنت خویلد ہی رہیں ، خدیجہ محمد یا خدیجہ ہاشمی نہیں ہو گئیں ۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، عائشہ بنت ابوبکر ہی رہیں ۔ حضرت بی بی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے باپ کے  نام نامی سے ہی پہچانی گئیں ۔ مصری قبیلے سے آئی ہوئی حضرت بی بی ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے قبیلے کے نام سے ہی مشہور رہیں اور آج بھی ایسے ہی جانی جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ حضور پر نور  پیغمبر اعظم افضل الانبیا و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا یہ قول بھی نہیں بھولنا چاہئے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی ولدیت اور اپنے نسب کی شناخت کو مت تبدیل کرو کیونکہ جو ایسا کرے گا  وہ گناہ کا کام کرے گا ۔  آپ کے اپنے منہ بولے بیٹے کو آپ  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے نام کے ساتھ پکارا گیا تو اللہ کو نا پسند ہوا اور احکامات آ گئے کہ لوگوں کو ان کے باپ کے ناموں سے پکارو اور اگر ان کی ولدیت معلوم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ آج ہمارے گردا گرد کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی شناخت تبدیل کر رکھی ہوئی ہے ۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر نقلی طور پر سید ، نقوی ، جعفری ، چودھری، ملک اور نہ جانے کیا کیا بنے ہوئے ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے احکامات کی روشنی میں ان تمام لوگوں نے غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور انہیں چاہئے کہ وہ اپنی روش تبدیل کرلیں۔
انفرادی طور پر دیکھیں کہ نام کی تبدیلی کے ساتھ کس قدر مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ لڑکی کی شادی ہو جائے تواس کے نام کی تبدیلی کے بعد اس کو اپنے تمام تعلیمی اور دیگر سرٹیفیکیٹ اور کاغذات میں نئے نام کا اندراج کرانا پڑتا ہے اور آج کی دنیا میں جہاں سیکیوریٹی کے معاملات انتہائی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں ایسا کوئی کام سرکاری اداروں سے کرانا بڑے جان جوکھم کا کام ہے  اور اگر بالفرض کسی نے ان تمام تکلیفوں اور دشواریوں کو طے کر کے یہ مرحلہ گزار لیا اور پھر  اللہ کی رضا سے اس کی شادی ناکام ہو جائے اور اسے واپس اپنی پرانی جگہ پر آنا پڑے تو اس کے لیے تو یہ مرحلہ دوگنی زحمت کا باعث ہو گیا ۔ ہمارے ملک میں اللہ کا شکر ہے کہ ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی مگر مغرب کی خواتین اپنے نام کی اس تبدیلی کی وجہ سے بڑی پریشان ہیں ۔ ان کی سوشل زندگی میں بھی بڑی گڑ بڑ ہو جاتی ہے اور نوکری کے علاوہ ان تمام دیگر دفاتر اور ریکارڈ میں بار بار کی تبدیلی بھی دشواری پیدا کر رہی ہے ۔ ان کے یہاں تو شاذ ہی کوئی شادی چار پانچ سال چلتی ہے ۔ گویا ہر تھوڑے عرصہ کے بعد اس تکلیف دہ عمل سے گزرنا بڑا عذاب بنا ہوا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کے یہاں بھی  اب یہ  تذکرہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ شادی کے بعد نام تبدیل نہ کیا جائے ۔ امریکہ  کے بعض صوبائی علاقوں میں اور دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں یہ قانون ہے کہ شادی کے بعد جو خواتین اپنے شوہروں کا نام اپنے نام کے ساتھ اختیار نہیں کرتیں انہیں حکومت سے ملنے والی بہت سی مراعات سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ ان کے یہاں کوشش ہو رہی ہے کہ اس کالے قانون کو تبدیل کر دیا جائے اور خواتین کو تحفظ دیا جائے اور ان کی شخصی آزادی کو برقرار رکھا جائے۔
اگر ٹھنڈے دل سے اس معاملہ پر غور کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب مرد عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ان کے سیاہ سفید پر قابض ہو جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ہر وہ رویہ استعمال کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو اور نظر آئے کہ ان کی عورتیں ان کی محکوم ہیں اور وہ ان پر حاکم ہیں ۔ اسی سوچ کا شاخسانہ مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے وقتاً فوقتاً آتا رہتا ہے۔ عورتوں کے اوپر ہمارے معاشرہ میں جو ظلم و ستم روا رکھا جاتا ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر قوام ضرور بنایا ہے مگر اس قوامیت کا غلط ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ مردوں نے عورتوں پر اپنی برتری مقرر کر لی ہے بلکہ اسی حکم الٰہی کے پردہ میں عورتوں پر ظلم و بربریت کو رواج دے رکھا ہے ۔عورتوں کے نام کی تبدیلی بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ مردوں کا یہ رویہ سراسر ناروا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو برابر پیدا کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مردوں کو زیادہ طاقت اور قوت اس لیے عطا کی ہے کہ وہ اپنے گھر کی حفاظت کرے ، دوسروں کو اپنا محکوم اور غلام بنانے کے لیے نہیں ۔ اسی طرح عورتوں کو گھر چلانے اور بچوں کی پرورش کی ذمہ داری  دی گئی ہے تو ان کے اندر محبت ، اخلاص اور قوت برداشت بھی زیادہ دی گئی ہے ۔ زندگی کا حسن ان دونوں کے باہمی ربط اور آپس کی محبت میں ہے ۔ نہ کوئی کسی سے زیادہ ہے اور نہ کم ۔ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے اور اپنی زندگی کا خاکہ اسی کے مطابق بنانا چاہئے۔